بندر کی خریدوفروخت
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا بندر کی خریدوفروخت کرنا جائز ہے ؟
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعوان الملک الوھاب اللھم ھدایہ الحق والصواب
صورت مستفسرہ کے مطابق بندر کی بیع میں اختلاف ہے امام اعظم سے دو روایتیں ہیں ایک امام حسن بن زیاد سے جواز کی ہے اور امام ابو یوسف سے منع کی روایت ہے اور مختار قول جواز کا ہے کہ بندر کے ساتھ کھیل اور تمسخر کرنا اگرچے حرام ہے لیکن وہ اس کی بیع سے مانع نہیں بلکہ وہ بیع مکروہ ہوگی اور اگر لہو ولعب کا قصد نہ کیا تو بیع بلاکراہت جائز ہوگی اور حیوانات کی بیع میں اصول یہ ہے سوائے خنزیر کے تمام کی بیع جائز و درست ہے۔
فتح القدیر میں ہے
“وفي بيع القرد روايتان عن أبي حنيفة : رواية الحسن الجواز ، ورواية أبي يوسف بالمنع”
اور بندر کی بیع میں امام اعظم سے دو روایتیں ہیں ایک روایت امام حسن سے جواز کی ہے اور امام ابو یوسف سے منع کی ہے۔(فتح القدیر كتاب البيوع جلد 7 صفحہ 118 مطبوعہ بیروت)
فتویٰ ھندیہ میں ہے
“وفی بیع القردہ روایتان عن ابی حنیفہ رحمہ اللہ علیہ فی روایہ یجوز وھی المختار کذا فی المحیط السرخسی ویجوز بیع جمیع الحیوانات سوی الخنزیر وھو مختار”
بندر کے بیچنے میں امام اعظم رحمہ اللہ سے دو روایتیں آئی ایک روایت میں ہے کہ جائز ہے اور یہی مختار ہے یہ محیط سرخسی میں لکھا ہے خنزیر کے سوا تمام حیوانات کی بیع جائز ہے اور یہی مختار قول ہے۔(فتویٰ ھندیہ جلد 3 صفحہ 122 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)
درمختار میں ہے
“والتمسخر بالقردہ وان کان حراما لایمنع بیعہ بل یکرہ”
اور بندر کے ساتھ تمسخر کرنا اگرچے حرام ہے مگر وہ اس کی بیع کے مانع نہیں بلکہ وہ مکروہ ہوگی۔(درمختار کتاب البیع باب المتفرقات جلد 7 صفحہ 506 مطبوعہ دار الفکر بیروت)
ردالمختار میں ہے
“وفی بیع القرد روایتان وجہ روایہ الجواز وھو الاصح زیلعی انہ یمکن الانتفاع بجلدہ وھو وجہ ما فی المتن ایضاً وصحیح فی البدائع عدم الجواز لانہ لایشتری للانتفاع بجلدہ عادہ بل للتلھی بہ وھو حرام قلت وظاھرہ انہ لو قصد التلھی بہ لجاز بیعہ ثم انہ یرد علیہ ما ذکرہ الشارح عن شرح الوھبانیہ من ان ھذا لایقتضی عدم الصحہ البیع بل کراھہ والحاصل ان المتون علی جواز بیع ماسوی الخنزیر مطلقاً “
بندر کی بیع میں در روایتیں ہیں جواز کی روایت کی وجہ یہی اصح ہے زیلعی یہ ہے کہ اس کی جلد سے نفع حاصل کرنا ممکن ہے اور یہی وجہ ہے جو متن میں بھی ہے اور بدائع میں عدم جواز کو صحیح قرار دیا ہے کیونکہ عادہ اس کی جلد سے نفع اٹھانے کے لیے اسے نہیں خریدا جاتا بلکہ اسے لہو ولعب کے لیے خریدا جاتا ہے جو حرام ہے بحر ۔
میں کہتا ہوں اس کا ظاہر یہ ہے کہ اگر اس سے لہو ولعب کا قصد نہ ہو تو اس کی بیع جائز ہے پھر بلاشبہ اس پر وہ وارد ہوتا ہے جو شارح نے شرح الوھبانیہ میں ذکر کیا کہ یہ بیع کے صحیح نہ ہونے کا تقاضا نہیں کرتا بلکہ اس کی کراہت کا کا تقاضا کرتا ہے ۔
حاصل یہ ہے کہ متون خنزیر کے سوا مطلقاً تمام کی بیع جائز ہے۔(ردالمختار کتاب البیع باب المتفرقات جلد 7 صفحہ 506 مطبوعہ دار الفکر بیروت)
بہار شریعت میں ہے:
”بندر کو کھیل اور مذاق کے لیے خریدنا منع ہے اور اُس کے ساتھ کھیلنا اور تمسخر کرنا حرام۔“(بہار شریعت جلد 2 حصہ 11 صفحہ 814 مطبوعہ مکتبہ المدینہ کراچی)
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
کتبـــــــــــــــــــــــــــہ
ممبر فقہ کورس
07 ربیع الآخر 1445ھ23اکتوبر 2023ء