کریڈٹ کارڈ کی شرعی حیثیت

کریڈٹ کارڈ کی شرعی حیثیت

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس بارے میں کہ کریڈیٹ کارڈ کے بارے میں کیا حکمِ شرعی ہے؟ میرا اکاؤنٹ پاکستان کے ایک بینک میں ہے وہ مجھے آفر کر رہے ہیں کہ اگر آپ کریڈٹ کارڈ لیں گے تو ہی آپ بیرون ملک میں اسے استعمال کر سکیں گے؟ کیا یہ لینا میرے لیے جائز ہے؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب

بینک کریڈٹ کارڈ لینا ناجائز ہے، صورت مسئولہ میں بھی اس کی اجازت نہیں ہوگی۔ کریڈٹ کارڈ کے معاہدے میں عموماً یہ شرط ہوتی ہے کہ مقررہ وقت پر استعمال شدہ رقم واپس نہ کر پانے، یا اکاؤنٹ میں اتنی رقم موجود نہ ہونے کی صورت میں اضافی چارجز دینا پڑیں گے جو کہ سود ہے اور سود حرام ہے۔ دراصل کریڈٹ کارڈ پر جو رقم استعمال کی جا رہی ہوتی ہے وہ بندے کی اپنی نہیں بلکہ بینک کی ہوتی ہے یعنی بینک کی وہ رقم کریڈٹ کارڈ استعمال کرنے والے پر قرض ہوتی ہے۔ مہینے کے اختتام پر یا مخصوص تاریخ پر بینک وہ رقم اس شخص کے اکاؤنٹ سے کاٹ لیتا ہے، اب اگر اکاؤنٹ میں اتنی پیسے نہ ہوں تواس شخص کو اضافی رقم بطور جرمانہ یا انٹرسٹ دینا ہوگی، اور قرض پر مشروط اضافہ سود ہوتا ہے۔

نیز اگر کوئی شخص یہ گمان کرے کہ سود لازم ہونے سے پہلے ہی وہ رقم بینک کو لوٹا دے گا، یا اپنے اکاؤنٹ میں اتنے پیسے پہلے ہی جمع کروا دے گا، تب بھی سودی معاملہ طے کرنے اور اس سودی کنٹریک پر راضی ہونے کی وجہ سے یہ ناجائز ہے۔

مشورہ: بیرون ملک استعمال کرنے کے لیے کریڈٹ کارڈ ہی ہو یہ ضروری نہیں ہوتا، ڈیبٹ کارڈ اور ماسٹر کارڈ (ڈیبیٹڈ) وغیرہ سے بھی کام آسانی سے چل سکتا ہے۔ لہذا اپنے بینک سے یا ماہرین سے مزید مشورہ کیا جائے۔

حدیث پاک میں ہے

”لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه، وقال: هم سواء“

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، سود کی وکالت کرنے والے، اس کے لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے، اور ارشاد فرمایا کہ : یہ تمام لوگ برابر ہیں۔(صحیح مسلم، كتاب المساقاة، باب لعن آكل الربا ومؤكله، جلد نمبر 3، صفحه نمبر 1219، حدیث نمبر1598، مطبوعه: دار إحياء التراث العربي)

شیخ الإسلام والمسلمین امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان﷫ (المتوفی: 1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:

”تعزیر بالمال منسوخ ہے اور منسوخ پر عمل جائز نہیں۔درمختار میں ہے:” لاباخذ مال فی المذھب بحر“(یعنی: مال لینے کا جرمانہ مذہب کی رُو سے جائز نہیں ہے۔)اُسی میں ہے:”وفی المجتبٰی انہ کان فی ابتداء الاسلام ثم نسخ“(یعنی: اور مجتبٰی میں ہے کہ (مالی جرمانہ) ابتدائے اسلام میں تھا، پھر منسوخ کردیا گیا۔)ردالمحتار میں بحر سے ہے:”وافاد فی البزازیۃ، ان معنی التعزیر باخذ المال، علی القول بہ، امساک شیئ من مالہ عندہ مدۃ لینزجر، ثم یعیدہ الحاکم الیہ، لا ان یاخذہ الحاکم لنفسہ اولبیت المال، کمایتوھمہ الظلمۃ، اذلایجوز لاحد من المسلمین اخذ مال احد بغیر سبب شرعی“ (یعنی: اور بزازیہ میں افادہ کیا ہے کہ مالی تعزیر کا قول اگر اختیار کیا بھی جائے تو اس کا صرف اتنا ہی مطلب ہے کہ اس کا مال کچھ مدّت کے لئے روک لینا تاکہ وہ باز آجائے، اس کے بعد حاکم اس کا مال لوٹادے، نہ یہ کہ حاکم اپنے لیے لے لے یا بیت المال کیلئے، جیسا کہ ظالم لوگ سمجھتے ہیں، کیونکہ شرعی بسبب کے بغیر کسی کا مال لینا مسلمان کے لئے روا نہیں۔)(فتاوی رضویة، جلد نمبر 05، صفحه نمبر 11-12، مطبوعه: رضا فاؤنڈیشن لاہور)

آپ ﷫ ایک مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:

”ان قواعد پر دستخط لے لیے جاتے ہیں یا ایسے شرائط وہاں مشہور و معلوم ہوکر المعروف کالمشروط ہوں جب تو وہ نوکری ہی ناجائز وگناہ ہے کہ شرط فاسد سے اجارہ فاسد ہوا اور عقدِ فاسد حرام ہے اور دونوں عاقد مبتلائے گناہ اور ان میں ہر ایک پر اس کا فسخ واجب ہے۔ “(فتاوی رضویة، جلد نمبر 19، صفحه نمبر 506-507، مطبوعه: رضا فاؤنڈیشن لاہور)

صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی ﷫ (المتوفی: 1367ھ/1948ء) لکھتے ہیں:

”قرض دیا اور ٹھہرا لیا کہ جتنا دیا ہے اس سے زیادہ لے گا جیسا کہ آج کل سود خوروں (سود کھانے والوں) کا قاعدہ ہے کہ روپیہ دو روپے سیکڑا ماہوار سود ٹھہرا لیتے ہیں، یہ حرام ہے یونہی کسی قسم کے نفع کی شرط کرے، ناجائز ہے۔“(بہار شریعت، جلد نمبر 2، حصہ نمبر 11،صفحه نمبر 759، مطبوعه: مکتبة المدینہ)

و اللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبہ

عبده المذنب احمدرضا عطاری حنفی عفا عنه الباري

06 شوال المکرم 1444ھ / 27 اپریل 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں