انسانی بالوں کی خرید و فروخت

انسانی بالوں کی خرید و فروخت

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس بارے میں کہ کیا انسانی بالوں کی خرید و فرخت درست ہے؟ نیز عورتیں آجکل کنگھے سے اترنے والے بال بیچتی ہیں ان کے بارے کیا حکم ہے؟

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوہاب

انسان کو اللہ تعالیٰ معزز و مکرم، اشرف المخلوقات اور اچھی صورت والا بنایا ہے تو انسان خواہ عورتوں کے بالوں کی خرید و فرخت میں ایک تو انسان کی ہتک و توہین ہے۔ دوسرا یہ کہ حدیث پاک میں اپنے بالوں میں دوسرے کے بال لگانے والی اور لگوانے والی دونوں پر لعنت فرمائی گئی۔ جس سے علماء کرام نے دلیل پکڑی کہ جب دوسرے انسان کے بالوں سے نفع اٹھانا جائز نہیں، تو بیچنا بدرجۂ اولیٰ ناجائز ہوا۔ بلکہ فقہاء کرام نے تصریح فرمائی کہ بیع و شراء مال کی ہوتی ہے جبکہ انسان یا اس کا کوئی عضو مال نہیں، تو اس کا بیچنا کیسے جائز ہو سکتا ہے۔

لہذا انسان کے بالوں کی خرید و فرخت ناجائز و باطل اور گناہ ہے۔ مزید یہ کہ عورت کے بال عورت یعنی چھپانے کی چیز ہے تو اسے نامحرم کے سامنے کھولنا جائز نہیں۔ پھر بال نامحرم کو بیچنے کیلئے دکھانا، بلکہ تدریج بتدریج کئی نامحرموں کا نظر پڑنا کتنا عجیب معاملہ ہے اور ایک غیرت مند، مہذب اور باحیا خاتون کیسے یہ تصور کر سکتی ہے کہ اس کے بالوں پر کسی غیر کی نظر پڑے یہ سوچ اور تصور بھی عجب ہے۔ مگر افسوس کہ چند ٹکوں(پیسوں)کی خاطر عورتیں اس کا لحاظ نہیں کرتیں۔ اللّٰہ پاک ایسی خواتین کو ہدایت عطا فرمائے اور اس ناجائز کام سے پکی توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔ خواتین کو چاہیئے کنگھے وغیرہ کے ذریعے جو بال سر سے الگ ہوں،انہیں دفن کر دیا جائے۔ جس نے انسانی بال خریدے تو چونکہ یہ بیع ناجائز و باطل ہے لہذا وہ اس مال کا مالک ہرگز نہیں ہو سکتا۔ بلکہ اس کے لئے یہ مال حرام ہے لہذا مالکوں کو واپس لوٹائے۔ وہ نہ ہوں تو ان کے ورثا کو دیدے۔ معلوم نہ ہونے کی صورت میں بے ثواب کی نیت سے فقیروں پر صدقہ کر دے۔

ارشادِ خداوندی ہے:

﴿وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِیْۤ اٰدَمَ وَ حَمَلْنٰهُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ رَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلْنٰهُمْ عَلٰى كَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا﴾

ترجمہ:اور بیشک ہم نے اولادِ آدم کو عزت دی اور انہیں خشکی اور تری میں سوار کیا اور ان کو ستھری چیزوں سے رزق دیا اور انہیں اپنی بہت سی مخلوق پر بہت سی برتری دی۔ (پ15،بنی اسرائیل:70)

اورانسانی بناوٹ کو سب سے بہترین صورت پر بنایا ، اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

﴿لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْۤ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ ﴾

ترجمہ: بیشک یقیناً ہم نے آدمی کو سب سے اچھی صورت میں پیدا کیا۔ (پ30، التین :4)

امام محمد بن حسن شیبانی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں:

’’لا يجوز بيع ‌شعر الانسان والانتفاع به‘‘

ترجمہ:انسانی بالوں کی خرید وفروخت اور اُس سے نفع کا حصول جائز نہیں۔(الجامع الصغير مع شرحه النافع الكبير، صفحہ328، مطبوعہ دار عالَم الكتب، بيروت)

اِس عدمِ جواز کی عِلَّت بیان کرتے ہوئے ابوالحسنات علامہ عبدالحی لکھنوی علیہ الرحمہ نے لکھا:

’’لأن الإنسان مكرم فلا يجوز أن يكون منه شيء مبتذل ‘‘

ترجمہ:کیونکہ انسان کو عزت والا بنایا گیا ہے، لہذا یہ جائز نہیں کہ اُس کے بدن کے کسی حصے کو (بیع وشراء) کے ذریعے حقیر و ذلیل بنایا جائے۔ (النافع الكبير علی الجامع الصغير، صفحہ328، مطبوعہ دار عالَم الكتب، بيروت)

مبسوط سرخسی میں ہے:

”وَالْآدَمِيُّ مُحْتَرَمٌ شَرْعًا حَيًّا وَمَيِّتًا“

ترجمہ:اور آدمی زندہ ہو یا مردہ شرعاً محترم ہے۔(المبسوط للسرخسی، 160/10، مطبوعہ دار المعرفة)

ہدایہ میں ہے:

” ولا يجوز بيع شعور الإنسان ولا الانتفاع بها” لأن الآدمي مكرم لا مبتذل فلا يجوز أن يكون شيء من أجزائه مهانا ومبتذلا وقد قال: عليه الصلاة والسلام: “لعن الله الواصلة والمستوصلة” الحديث، وإنما يرخص فيما يتخذ من الوبر فيزيد في قرون النساء وذوائبهن“

ترجمہ:انسانی بالوں سے کی بیع اور اس سے نفع اٹھانا جائز نہیں کیونکہ آدمی مکرم ہے اسے خرچ نہ کیا جائے۔ لہذا اس کے اجزا میں سے کی جز کی توہین یا خرچ کرنا جائز نہیں۔ اور تحقیق حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے فرمایا:’’اپنے بالوں میں دوسرے کے بال لگانے والی اور لگوانے والی پر اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے۔اور بیشک اس صورت میں رخصت ہے کہ اونٹ یا خرگوش کے بال لئے جائیں، تاکہ عورتوں کے بالوں اور جوڑے میں اضافہ کیا جائے۔(ہدایہ،کتاب البیوع،باب البیع الفاسد،3/ 46، داراحیاء التراث العربی بیروت)

بنایہ شرح ہدایہ میں ہے:

”قلت: “واضح به لأن المدعي عدم جواز البيع وعدم جواز الانتفاع به واستحقاق اللعن في الوصل يدل على عدم جواز الانتفاع به وعدم جواز الانتفاع يدل على عدم جواز البيع“

ترجمہ:میں کہتا ہوں(انسانی بالوں کی بیع اور نفع اٹھانے کی ممانعت)واضح ہے کیونکہ دعوی یہ ہے انسانی بالوں کی بیع اور نفع اٹھانا ممنوع ہے۔ اور بال ملانے پر لعنت کا مستحق ہونا بالوں سے نفع کے عدم جواز پر دلالت کرتا ہے اور نفع کا جائز نہ ہونا بیع کے جائز نہ ہونے پر دلالت کرتا ہے۔(بنایہ،کتاب البیوع،باب البیع الفاسد،8/ 166، دارالکتب العلمیہ بیروت)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

”ولا يجوز بيع شعور الإنسان ولا يجوز الانتفاع بها و هو الصحيح كذا في الجامع الصغير. ولو أخذ شعر النبي صلى الله عليه وسلم ممن عنده وأعطاه هدية عظيمة لا على وجه البيع والشراء لا بأس به كذا في السراجية“

ترجمہ:اگر حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کے موئے مبارک کسی سے لئے اور اس کو خوب ہدیہ پیش کیا تو اس میں حرج نہیں جبکہ بیع کے طور پر نہ ہو۔ اسی طرح سراجیہ میں ہے۔ اور انسانی بالوں کی بیع ناجائز ہے اور نہ ہی ان سے نفع لینا جائز ہے یہی صحیح ہے جیسا کہ جامع صغیر میں ہے۔(ہندیہ،کتاب البیوع ،الفصل الخامس في بيع المحرم الصيد وفي بيع المحرمات، 3/ 115 -116، دارالفکر بیروت)

اس بیع کے باطل ہونے کے متعلق تنویر الابصار مع درمختار میں ہے:

”(كما بطل) بیع … (شعر الإنسان) لكرامة الآدمي“

ترجمہ:جیسا کہ انسانی بالوں کی بیع باطل ہے آدمی کی عزت و کرامت کے سبب۔(الدر المختار مع ردالمختار، 58/5، مطبوعہ دار الفکر بیروت)

ردالمحتار میں ہے:

”(قوله: وشعر الإنسان)ولايجوز الانتفاع به؛ لحديث: «لعن الله الواصلة والمستوصلة». وإنما يرخص فيما يتخذ من الوبر فيزيد في قرون النساء وذوائبهن، هداية وإنما يرخص فيما يتخذ من الوبر فيزيد في قرون النساء وذوائبهن“

ترجمہ:انسانی بالوں سے نفع اٹھانا جائز نہیں اس حدیث پاک کے سبب کے سبب:’’اپنے بالوں میں دوسرے کے بال لگانے والی اور لگوانے والی پر اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے۔اور بیشک اس صورت میں رخصت ہے کہ اونٹ یا خرگوش کے بال لئے جائیں تاکہ عورتوں کے بالوں اور جوڑے میں اضافہ کیا جائے۔(ردالمحتار، کتاب البیوع،باب البیع الفاسد، 58/5، مطبوعہ دار الفکر بیروت)

ردالمحتار میں ہے:

”(قوله: ذكره المصنف) حيث قال: والآدمي مكرم شرعًا وإن كان كافرًا فإيراد العقد عليه وابتذاله به وإلحاقه بالجمادات إذلال له.اه أی وهو غير جائز۔۔۔وصرح في فتح القدير ببطلانه ط“

ترجمہ:مصنف نے فرمایا کہ آدمی مکرم ہے شرعا اگرچہ کافر ہو لہذا اس پر عقد وارد کرنے،اسے خرچ کرنے اور اسے جمادات کے ساتھ لاحق کرنے میں آدمی کی ذلت ہے۔ اور یہ ناجائز ہے۔ اور فتح القدیر میں اس کے باطل ہونے کی تصریح کی۔(ردالمحتار،کتاب البیوع، باب البیع الفاسد ،مطلب: الآدمي مكرم شرعًا ولو كافرًا،5/ 58، )

تبیین الحقائق میں ہے:

’’لا يجوز ‌بيع ‌شعر ‌الإنسان والانتفاع به، لأن الآدمي مكرم فلا يجوز أن يكون جزؤه مهانا وقال عليه السلام «لعن اللہ الواصلة والمستوصلة»، وإنما لعنا للانتفاع به لما فيه من إهانة المكرم‘‘

ترجمہ: انسانی بالوں کی خرید وفروخت اور اُس سے نفع کا حصول جائز نہیں، کیونکہ انسان کو عزت والا بنایا گیا ہے، لہذا یہ جائز نہیں کہ اُس کے بدن کے کسی حصے کی(بیع وشراء) کے ذریعے اہانت کی جائے۔ محسنِ انسانیت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا:’’اپنے بالوں میں دوسرے کے بال لگانے والی اور لگوانے والی پر اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے۔ اُن دونوں (واصِلہ اور مُستوصِلہ) پر بالوں سے نفع اٹھانے کی وجہ سے ہی لعنت کی گئی، کیونکہ اُن کی اُس حرکت (وصل الشعر) میں کرامتِ انسانی کی اِہانت وتذلیل ہے۔ (تبیین الحقائق، جلد4، صفحہ 51،مطبوعہ المطبعۃ الکبریٰ الامیریۃ، مصر)

انسانی اعضاء کے مال نہ ہونے کے متعلق عنایہ شرح ہدایہ میں ہے:

’’جزء الآدمی لیس بمال۔۔۔وما لیس بمال لا یجوز بیعہ‘‘

ترجمہ: آدمی کا جزو مال نہیں اور جو چیز مال نہ ہو،اس کی خریدوفروخت جائز نہیں۔(العنایۃ شرح الھدایۃ، جلد6، صفحہ 390، مطبوعہ کوئٹہ)

اعضائے بدن کی طرف نظر کرنے کے متعلق ضابطہ یوں ہے:

’’ کل عضو لا یجوز النظر إلیه قبل الانفصال، لا یجوز بعده و لا بعد الموت، کشعر عانة و شعر رأسها‘‘

ترجمہ: ہر وہ عضو کہ جس کی طرف جسم سے جدا ہونے سے پہلے دیکھناجائز نہیں،اُس کی طرف جسم سے جدا ہونے کے بعد بھی دیکھناجائز نہیں،حتی کہ موت کے بعد بھی نہیں،جیسا کہ زیرِ ناف بال اور عورت کے سر کے بال۔(درمختار مع ردالمحتار ، جلد9، صفحہ612، مطبوعہ کوئٹہ )

بہار شریعت میں ہے:

’’عورتوں کو بھی لازم ہے کہ کنگھا کرنے میں یا سر دھونے میں جو بال نکلیں، انہیں کہیں چھپا دیں کہ اُن پر اجنبی کی نظر نہ پڑے۔“(بھار شریعت، جلد3، حصہ16، صفحہ449، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

بیعِ باطل کی صورت میں حاصل شدہ ثمن کا حکم بیان کرتے ہوئے امامِ اہلِ سنَّت ، امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن لکھتے ہیں:

’’بُطلان پر(بیع باطل کی صورت میں)وہ روپیہ کہ بنامِ ثمن ، زمینداروں نے لیا ، اُن کے لیے حرام‘‘ (فتاویٰ رضویہ، جلد19، صفحہ431،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

ایسی رقم کی واپسی کے متعلق لکھا:

’’قیمت کہ زمینداروں نےلی ، بدستور ملکِ مشتریان (پرباقی ہے)، اُن (زمینداروں)پر فرض کہ قیمت پھیریں(واپس ادا کریں)‘‘(فتاویٰ رضویہ، جلد19، صفحہ427،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

واپسی کرنے کی دیگر صورتوں کے متعلق لکھا:

’’اس پر فرض ہے کہ(مالِ حرام) جس جس سے لیا ان پر واپس کر دے،وہ نہ رہے ہوں،ان کے ورثہ کو دے،پتہ نہ چلے ،تو فقیروں پر تصدق کرے، خرید و فروخت کسی کام میں اس مال کا لگانا حرام قطعی ہے،بغیر صورت مذکورہ کے کوئی طریقہ اس کے وبال سے سُبکدوشی کا نہیں۔‘‘(فتاویٰ رضویہ، جلد23، صفحہ551،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

واللّٰہ تعالٰی اعلم و رسولہ اعلم باالصواب

صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ و علی آلہ و اصحابہ و بارک و سلم

ابوالمصطفٰی محمد شاہد حمید قادری

7ربیع الثانی1445ھ

23اکتوبر2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں