خریدو فروخت میں ایکسپائری ڈیٹ کے متعلق احکام

خریدو فروخت میں ایکسپائری ڈیٹ کے متعلق احکام

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ خرید و فروخت کے معاملات شریعت کی نظر میں میں ایکسپائری ڈیٹ کا کیا تصور ہے؟ ایک تاجر کوئی غلہ خریدتا ہے یا دیگر کھانے پینے کا سامان خریدتا ہے، جس پر وہ قانونی طور پر 2 سال کی ہی ایکسپائری ڈیٹ لگا سکتا ہے، اب اگر وہ چیز دو سال تک نہیں بکتی اور چیز ٹھیک ہے تو آیا اسے بیچنا درست ہے؟ نیز بعض تاجر ایکسپائری ڈیٹ چینج کرتے ہیں یعنی جب کسی لاٹ کی ایکسپائری ڈیٹ قریب آ گئی تو اسے چیک کر کے کہ یہ ابھی ٹھیک ہے یا نہیں، اگر ٹھیک ہو تو مزید دو سال کی ڈیٹ لگا دیتے ہیں، ان کا ایسا کرنا کیسا؟ یوں ہی بعض تاجر سامان خرید لیتے ہیں، لیکن اس پر ایکسپائری ڈیٹ نہیں لگاتے بلکہ جب اسے مارکیٹ میں لاتے ہیں تب اس پر ایکسپائری ڈیٹ لگاتے ہیں تاکہ دو سال تک اگر وہ نہ بکے تو انہیں کوئی مسئلہ نہ ہو۔ ان سب صورتوں کا حکم مفصل و مدلل ارشاد فرما دیں! سائل: انس عطاری (بارسلونا،اسپین)

نوٹ: اس مسئلے کے متعلق یورپین قانون کی معلومات حاصل کی گئی ہے۔

بسم الله الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملك الوهاب اللهم هدایة الحق والصواب

جواب سے قبل چند باتیں ذہن نشین رکھ لیں تاکہ جواب سمجھنے میں آسانی ہو:

٭بعض غلے (مثلاً گندم، چاول) اور اشیائے خرد و نوش (مثلاً کول ڈنکس، بسکٹ) ایسے ہوتے ہیں جن پر ایکسپائری ڈیٹ لگانا قانوناً ضروری ہوتا ہے۔ نیز بعض ایسی چیزیں ہوتی ہیں جن پر ایکسپائری ڈیٹ لگانا قانوناً ضروری تو نہیں ہوتا لیکن پھر بھی لگائی جاتی ہے۔

٭بعض چیزوں کی ایکسپائری ڈیٹ مینوفیکچرر لگاتا ہے، جبکہ بعض چیزوں پر ایکسپائری ڈیٹ لگانے کی ذمہ داری تاجر کی ہوتی ہے۔ یوں ہی کچھ ایسے پروڈکٹس ہوتے ہیں جن پر ایکسپائری ڈیٹ باقاعدہ لیب ٹیسٹنگ کے بعد لگائی جاتی ہے اور ان کی میعاد بڑھانے کے لیے ان میں مختلف فارمولاز ڈالے جاتے ہیں۔ اس کے برعکس بعض ایسی چیزیں ہوا کرتی ہیں جن کی ایکسپائری ڈیٹ کسی خاص لیبارٹی ٹیسٹ کی بنیاد پر نہیں بلکہ محض تجربے و مشاہدے کی بنیاد پر لگتی ہے۔

٭ پھر ایکسپائری ہونے کے بھی مختلف درجات ہیں: بعض چیزوں میں ایکسپائری ہونا اس چیز کو مضرِ صحت بنا دیتا ہے، جبکہ بعض میں وہ شے مضرِ صحت تو نہیں ہوتی البتہ صرف اس چیز کا رنگ و ذائقہ بدل جاتا ہے۔ یوں ہی بعض پروڈکٹس میں ایکسپائری ہونے سے ان کا انسانی استعمال موجبِ نقصان ہوتا ہے، لیکن اس کو جانوروں کے یا اور کسی کام لانا ممکن ہوتا ہے۔ مگر بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ ان کا ایکسپائر ہو جانا ان کو ناقابلِ استعمال و نالائقِ انتفاع بنا دیتا ہے کہ ان کو کسی صورت استعمال نہیں کیا جا سکتا۔

مذکورہ بالا تمہید وصورتوں کو جاننے کے بعد حکمِ مسئلہ یوں ہے کہ ہر وہ چیز جس پر قانوناً ایکسپائری ڈیٹ لگانا ضروری ہو اور نہ لگانے کی صورت میں قانوناً پکڑ کا سامنا ہو تو اس پر ایکسپائری ڈیٹ لگانا شرعا بھی ضروری ہوگا، کہ نہ لگانے کی صورت میں قانوناً گرفت اور مسلمان کا اپنے آپ کو ذلت پر پیش کرنا پایا جا رہا ہے، جس کی شرعا اجازت نہیں۔ جن اشیا پر ایکسپائری ڈیٹ لگانا قانوناً ضروری نہیں اور نہ لگانے کی صورت میں قانوناً مواخذہ بھی نہیں، لیکن عام تاجر ان پر بھی لگاتے ہیں تو شرعا ایسی چیزوں پر ایکسپائری ڈیٹ لگانا لازم تو نہیں ہوگا لیکن لگا لینا بہتر ہے۔

کسی چیز کا ایکسپائر ہونا اس چیز کا عیب شمار ہوتا ہے اور عیب دار چیز کو علم ہوتے ہوئے بغیر بتائے فروخت کرنا شرعا ناجائز و گناہ ہے کہ یہ دھوکہ دینا ہے کیونکہ خریدار درست چیز خریدنے کا متمنی ہوتا ہے اور بلا عیب چیز ہی پر وہ سودا کرتا ہے، جب اسے عیب دار چیز دی گئی تو یہ اس کی حق تلفی بھی ہوئی اور دھوکہ دہی بھی۔ نیز وہ اشیا جن کی ایکسپائری ڈیٹ گزر جانے کے بعد انہیں فروخت کرنا قانوناً جرم ہے ان اشیا میں اپنے آپ کو ذلت پر پیش کیے جانے کی وجہ سے بھی اس بیع کی ممانعت ہوگی۔ مزید یہ کہ کئی اشیا ایکسپائرڈ ہو جانے سے مضرِ صحت ہو جاتی ہیں بلکہ استعمال کرنے والے کی موت کا باعث بھی بن جاتی ہیں، ان کا حکم اور سخت ہوگا کہ انہیں بیچنا جان لینے کے مترادف ہے جو کہ اشد حرام ہے۔

نیزیہ کہ ایکسپائرڈ اشیا کی قیمت انتہائی کم ہوتی ہے،بلکہ نہ ہونے کے برابرہوتی ہےاورمالک کا اسے فروخت کرکے درست اشیا والی قیمت وصول کرناغبن فاحش ہے، اورغبن فاحش سے مرادیہ ہے کہ کسی چیزکی ایسی قیمت سے خریدوفروخت کرناجوقیمت لگانے والوں کے اندازے سے باہر ہو، مثلا:ایک چیزدس روپے میں خریدی،توکوئی تاجراس کی قیمت پانچ اورکوئی چار اورکوئی چھ روپے بتاتاہے۔جو چیزغبن فاحش کے ساتھ دھوکا دے کرفروخت کی جائے ،توخریدارکواسے واپس کرنے کااختیار ہوتا ہے۔

البتہ وہ اشیا جن کی ایکسپائری ڈیٹ کا گزر جانا تاجروں کی نظر میں عیب شمار نہیں ہوتا، اور ان کی خرید و فروخت میں قانوناً بھی کوئی حرج نہیں ہے تو ان کو بیچنا جائز ہوگا کہ عدم جواز کی کوئی وجہ نہیں۔

جہاں تک تعلق ہے ایکسپائری ڈیٹ چینج کرنے کا، تو فی نفسہ اگر وہ چیز ٹھیک ہے جیسے کہ لیب ٹیسٹ سے یا تجربے و مشاہدے سے اس بات کا ادراک ہو جاتا ہے، تو اس کی ایکسپائری ڈیٹ چینج کر کے مزید آگے بڑھا لینا جائز ہے۔ لیکن اس میں اصول یاد رکھیں کہ اگر کسی مقام پر یا کسی خاص پروڈکٹ پر ایکسپائری ڈیٹ گزر جانے کے بعد اسے تبدیل کر کے مزید آگے کی ڈیٹ ڈالنے کا کام قانوناً جرم ہو اور اس پر قانونی طور پر مواخذہ ہوتا ہو تو شرعی طور پر بھی ایسا کرنا ممنوع ہوگا۔ جہاں قانوناً کوئی الگ طریقہ موجود ہو کہ جس کے ذریعے اشیا کی ایکسپائری ڈیٹ گزر جانے کے بعد انہیں، مثلاً لیب ٹیسٹ وغیرہ کے ذریعے، مزید آئندہ کی ڈیٹ دی جاتی ہو تو وہاں وہی طریقہ اختیار کرنا ہوگا۔

وہ اشیا جن پر ایکسپائری ڈیٹ کا اندراج کرنا تاجر کی ذمہ داری ہوتی ہے اور قانوناً اس پر یہ لازم بھی نہیں کہ جب مال خریدا اسی وقت یہ ایکسپائری ڈیٹس لگائے تو جب وہ یہ مال مارکیٹ میں لانے والا ہے اس وقت تک ایکسپائری ڈیٹ نہ لگانے کی بھی اسے اجازت ہے جبکہ مال کو مارکیٹ میں اتارتے وقت اس کی لیب ٹیسٹنگ یا تجربہ و مشاہدہ سے اس پر ایکسپائری ڈیٹس کا اندراج کر دے۔

کسی انسان کی جان ضائع کرنے کے حرام ہونے کے بارے میں ارشادِ خداوندی ہے:

﴿مَنۡ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیۡرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الۡاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیۡعًا ﴾ ترجمہ کنزالعرفان:’’جس نے کسی جان کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے بدلے کے بغیر کسی شخص کو قتل کیا تو گویااس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا۔‘‘ (پارہ 2، سورة المائدة 5، آیت نمبر 32)

مذکورہ بالاآیت کے تحت تفسیر نعیمی میں ہے:

” “مَن” سے مراد ہر انسان ہے،مؤمن ہو(یا) کافر، کیونکہ معاملات تمام انسانوں پر یکساں ہیں۔قتل سے مرادمار ڈالناہے، خواہ دھاردار آلہ سے ہو یازہر خورانی سے یاگلا گھونٹ کر یاکسی اورذریعہ سے،بلکہ قتل کرنا،قتل کرانا،قاتل ظالم کی قتل پر مدد کرناحتی کہ بعد قتل اس ظالم کو صاف بچا لینا بھی سخت جُرم ہے کہ یہ بھی قتل ِنفس کے متعلقات سے ہے۔“(تفسیرنعیمی،جلد نمبر6،صفحہ نمبر374،375، مکتبہ اسلامیہ،لاھور)

لوگوں سے ضررکودورکرنے کے بارے میں نبی کریم ﷺنے ارشادفرمایا:

’’لا ضرر ولا ضرار،من ضار ضرہ اللہ،ومن شاق شق اللہ علیہ‘‘ ترجمہ:نہ ضررلو ،نہ ضرردو،جوضرردے اللہ  اس کوضرردے اورجومشقت کرے، اللہ  اس پر مشقت ڈالے۔(سنن دارقطنی،جلد نمبر4،صفحہ نمبر51، مؤسسۃ الرسالہ، بیروت)

علامہ زين الدين بن ابراہيم المعروف ابن نجيم ﷫ (المتوفی: 970 ھ) لکھتے ہیں:

’’الضرر یزال،اصلھا قولہ علیہ الصلاۃ و السلام لاضرر و لاضرار‘‘ترجمہ:ضرر کوختم کیاجائے گا،اس قاعدے کی اصل حضور ﷺ کافرمان ہے:’’نہ ضررلواورنہ ضرردو۔‘‘(الاشباہ والنظائر،جلد نمبر1،صفحہ نمبر121، دارالکتب العلمیہ،بیروت)

خودکوذلت میں ڈالنے کے ناجائزہونے کے بارے میں جامع ترمذی،سنن ابن ماجہ اورمشکوٰۃ المصابیح میں حضرت حذیفہ سے روایت ہے:

’’ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا ینبغی للمومن ان یذل نفسہ‘‘ترجمہ: رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: مومن کو جائز نہیں کہ خود کو ذلت ورسوائی میں مبتلاکرے ۔(جامع الترمذی،ابواب الفتن،جلد نمبر4،صفحہ نمبر523، حدیث نمبر 2254،مطبوعہ: مطبعة مصطفى البابي)

علامہ بدرالدین ابو محمد محمود بن احمد عينى ﷫(المتوفى: 855ھ) لکھتے ہیں:

’’اذلال النفس حرام‘‘ترجمہ:نفس کوذلت پرپیش کرناحرام ہے۔(البنایہ شرح الھدایہ،کتاب النکاح ،جلد نمبر 5،صفحہ نمبر 109،مطبوعہ: دار الكتب العلمية)

خلافِ قانون امرکاارتکاب کرنے کے بارے میں اعلی حضرت امام احمد رضا خان ﷫(المتوفی 1340ھ) لکھتے ہیں:

’’ایسے امر کاارتکاب جو قانوناً،ناجائز ہواور جرم کی حد تک پہنچے، شرعاًبھی ناجائز ہوگا کہ ایسی بات کے لئے جر م قانونی کامرتکب ہوکر اپنے آپ کوسزااور ذلت کے لئے پیش کرناشرعاًبھی روانہیں۔‘‘(فتاوی رضویہ ،جلد نمبر 20،صفحہ نمبر 192، رضافاؤنڈیشن،لاھور)

بغیر بتائے عیب دارچیزفروخت کرنے کے ناجائز ہونے کے بارے میں سنن ابن ماجہ میں ہے:

”عن عقبۃ بن عامر قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم یقول : المسلم اخوالمسلم ولایحل لمسلم باع من اخیہ بیعا فیہ عیب الابینہ لہ“ترجمہ:حضرت عقبہ بن عامر سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ مسلمان ،مسلمان کا بھائی ہے اورجب مسلمان اپنے بھائی کے ہاتھ ایسی چیز بیچے جس میں عیب ہو توجب تک وہ عیب بیان نہ کردے،تو اسے بیچنا حلال نہیں۔‘‘(سنن ابن ماجہ،کتاب التجارات،جلد نمبر2،صفحہ نمبر755، حدیث نمبر 2246، مطبوعہ: دار إحياء الكتب العربية)

علامہ زين الدين بن ابراہيم ابن نجيم مصری ﷫(المتوفی 970ھ)فرماتے ہیں:

”کتمان عیب السلعۃ حرام،وفی البزازیہ وفی الفتاوی: اذا باع سلعۃ معیبۃ علیہ البیان وان لم یبین قال بعض مشائخنا: یفسق وترد شھادتہ، قال الصدر: ولاناخذ بہ وقیدہ فی الخلاصۃ بان یعلم بہ“ترجمہ:سامان کے عیب کو چھپانا حرام ہے۔ اوربزازیہ اورفتاوی میں ہے:جب کسی نے عیب دارچیز کو بیچا،تو اس پر عیب کو بیان کر دینا واجب ہےاوراگر عیب کو بیان نہیں کیا،توہمارے بعض مشائخ فرماتےہیں:ایسے شخص کو فاسق قرار دیاجائےگااوراس کی شہادت کورد کیاجائےگا،صدرالشریعہ نےفرمایا:اورہم اس قول کو نہیں لیتے،اورخلاصہ میں یہ قید بڑھائی گئی ہےکہ (یہ حکم تب ہوگا جب کہ) وہ(بیچنےوالا)اس عیب کوجانتابھی ہو۔(البحر الرائق شرح کنز الدقائق، کتاب البيع، جلد نمبر 6، صفحه نمبر 38، مطبوعه: دار الكتاب الإسلامي)

صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی ﷫ (المتوفی:1367ھ) فرماتے ہیں:

”مبیع میں عیب ہو تو اس کا ظاہر کردینا بائع(بیچنے والے)پر واجب ہے،چھپانا حرام وگناہ ِکبیرہ ہے۔یوہیں ثمن کا عیب مشتری پر ظاہر کر دینا واجب ہے۔“(بھارشریعت،جلد02،صفحہ673،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

عیب کی تعریف کے متعلق فتاوی عالمگیری میں ہے:

’’ كل ما يوجب نقصانا في الثمن في عادة التجار فهو عيب ‘‘ترجمہ: ہر وہ چیز جو تاجروں کے ہاں ثمن (ریٹ)میں کمی کاباعث بنے،وہ عیب ہے۔ (فتاوی هندیہ،کتاب البیوع،جلد3،صفحہ72،مطبوعه: دار الفکر)

دھوکادینے کی ممانعت کے بارے میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے:

’’ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال من حمل علینا السلاح فلیس منا ومن غشنا فلیس منا‘‘ ترجمہ:رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے ہم پر اسلحہ اٹھایا،وہ ہم میں سے نہیں اور جس نے ہمیں دھوکادیا،وہ بھی ہم میں سے نہیں۔(الصحیح لمسلم ،کتاب الایمان،باب من غشنافلیس منا،جلد نمبر 1، صفحہ نمبر 69، حدیث نمبر 101، مطبوعه: دار الطباعة العامرة)

غبنِ فاحش کے ساتھ دھوکے سے خریدی گئی چیزواپس کرنے کے بارے میں علامہ علاء الدین محمد بن احمد سمرقندی ﷫(المتوفى:540ھ) فرماتے ہیں میں ہے:

”واصحابنا یفتون فی المغبون انہ لایرد ولکن ھذا فی مغبون لم یغر، اما فی مغبون غر فیکون لہ حق الرد“ترجمہ:اورہمارے اصحاب غبن سے خریدی گئی چیزکے بارے میں فتوی دیتے ہیں کہ اسے واپس نہیں کیا جائے گا،لیکن یہ فتوی اس غبن سے خریدی گئی چیزکے بارے میں ہے کہ جس میں دھوکا نہ ہو،(یعنی بتا کر بیچا ہو)بہرحال جوچیزغبن کے ساتھ دھوکا دے کر فروخت کی گئی توخریدار کو چیز واپس کرنے کاحق حاصل ہے۔(تحفۃ الفقھاء،کتاب البیوع،باب الاقالۃ،جلد نمبر2،صفحہ نمبر108، دارالکتب العلمیہ،بیروت)

صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی ﷫ (المتوفی:1367ھ) فرماتے ہیں:

”کوئی چیز غبنِ فاحش کے ساتھ خریدی ہے،اس کی دوصورتیں ہیں:دھوکا دیکر نقصان پہنچایا ہے یا نہیں ،اگرغبن فاحش کے ساتھ دھوکا بھی ہے ،تو واپس کر سکتاہے ورنہ نہیں۔غبن فاحش کایہ مطلب ہے کہ اتنا ٹوٹا(نقصان)ہے، جو مقومین(قیمت کا اندازہ لگانے والوں)کے اندازہ سے باہرہو،مثلا: ایک چیز دس روپے میں خریدی، کوئی اس کی قیمت پانچ بتاتا ہے، کوئی چھ ،کوئی سات ،تویہ غبنِ فاحش ہے۔ “ (بھارشریعت،جلد نمبر2،صفحہ نمبر691، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

والله اعلم عزوجل ورسوله اعلم صلی الله تعالی علیه واله وسلم

کتبه

احمدرضا عطاری حنفی عفی عنہ

27 رجب المرجب 1444ھ/ 18 فروری 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں