”لیم“ نامی ایپ اور دیگر طریقوں سے سوشل میڈیا کے ذریعے پیسے کمانا

”لیم“ نامی ایپ اور دیگر طریقوں سے سوشل میڈیا کے ذریعے پیسے کمانا

سوال کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اور مفتیان دین اس بارے میں کہ ایپ کا نام” Lame “ہے ،اس کا مالک غیر ملکی ہے۔ اولا اس ایپ پر رجسٹر ہونا ہوتا ہے ،اس کے بعد اس ایپ میں یوٹیوب کے چینلز آتے ہیں جنہیں لائک اور سبسکرائب کرنا ہوتا ہے اور بعد میں ان چینلز کی تصاویر اس ایپ میں اپلوڈ کرنا ہوتی ہیں جس کے پیسے ملتے ہیں۔ ابتدائی تین دن فری سکرین شاٹ اپلوڈ کر کے 480 روپے ملتے ہیں۔ بعد میں اس کی دو صورتیں ہیں:

پہلی صورت یہ ہے کہ پیسوں کے حصول کے لیے ہمیں پہلے پیکج کرانا ہوتا ہے اگر ہم چار ہزار جمع کرائیں تو اس صورت میں ہمیں ایک سکرین شارٹ اپلوڈ کرنے پر 40 روپے ملتے ہیں جو مہینے کا اڑتالیس سو میں سے بعد از 10 فیصد کٹوتی کے ملتا ہے، اور اگر ہم 15000 والا پیکج کرائیں تو اس میں ایک سکرین شاٹ کے پچاس روپے ملتے ہیں جو مہینے کے اٹھارہ ہزار میں سے بعد از کٹوتی کے رقم ملتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ اس میں اگر ایسے چینلز آئیں جو فحاشی و عریانی سے مبرا ہوں تو کیا اس صورت میں اس ایپ کو استعمال کرنا اور اس سے کاروبار کرنا جائز ہے، اور اگر کیک یا فوڈ وغیرہ کے چینلز آئیں تو اس صورت میں استعمال کی کیا وضاحت ہو گی ویڈیو چینلز اختیار پر ہیں نیز اہم وضاحت یہ ہے کہ چار ہزار یا پندرہ ہزار جو جمع کرایا ہوتا ہے وہ کمپنی چھ ماہ بعد واپس کرنے کا کنٹریکٹ کرتی ہے، صورت مسئولہ میں حکم شرعی بیان کریں؟

نیز اسی طرح کی دیگر ایپ  KG appاور دیگرادارے بھی سوشل میڈیا پر اسی طرز کا کام کررہے ہیں،جن میں کچھ فرق ہے لیکن طریقہ کار تقریبا یہی ہے کہ مختلف پیکج کروانا ہوتے ہیں۔ ایک سسٹم یہ بھی رائج ہے کہ اسکول کالجوں میں پڑھنے والے بچوں کو جو اسائمنٹ ادارے کی طرف سے ملی ہوتی ہے وہ دیگر لوگوں سے کرواتے ہیں۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعوان الملک الوھاب اللھم ھدایہ الحق والصواب

صورت مسئولہ کے مطابق Lame app ہو یا KG app یا اس کے علاوہ دیگر ایپ یا ادارے ،جو سوشل میڈیا میں رائج ہیں یہ سب شرعا ناجائز و حرام طریقے ہیں۔ اس میں کئی شرعی خرابیاں(اجارہ فاسدہ،سود،رشوت،دھوکہ،بے حیائی وغیرہ) ہیں اور عموما یہ ادارے فراڈ کرتے ہیں ،شروع میں کچھ ممبروں کو نفع دیتے ہیں بعد میں لاکھوں روپے عوام کے لے کر بھاگ جاتے ہیں۔

اجارہ فاسدہ،سود ا ور رشوت

ہر عام مسلمان جانتا ہے کہ جب کسی ادارے میں نوکری کی جائے تو پیشگی کوئی رقم دینا نہیں پڑتی کیونکہ بندہ خود کمانے جارہا ہے نہ کہ کمپنی کو اپنے پلے سے دینے جارہا ہے۔ سوشل میڈیا میں رائج کمپنیوں نے جو ممبر بننے کے لیے یہ شرط رکھی ہے کہ پہلے ہم سےپیکج لیں تو یہ اجارہ پر شرط ہے جس کی وجہ سے اجارہ جائز نہیں ۔ نیز مختلف پیکج لینے پر بعد میں کمپنی کا اس میں سے کٹوتی کرنا بھی غیر شرعی عمل ہے کہ جب کام پورا کیا ہے تو اجرت بھی پوری ملنی چاہیے۔

تنویر الابصار میں ہے

’’تفسد الإجارۃ بالشروط المخالفۃ لمقتضی العقد‘‘

ترجمہ: مقتضائے عقد کے خلاف شرائط لگانے سے اجارہ فاسد ہو جاتا ہے ۔ (تنویر الابصار مع درمختارو ردالمحتار، کتاب الاجارہ، باب الاجارۃ الفاسدۃ ،جلد6،صفحہ46، دار الفکر، بیروت)

کنز الدقائق و بحر الرائق میں ہے

’’(قولہ یفسد الإجارۃ الشرط) أی الشروط المعھودۃ المتقدمۃ فی باب البیع الفاسد التی لیست من مقتضی العقد ‘‘

ترجمہ:اجارہ شرط لگانے سے فاسد ہو جاتا ہے یعنی ان شرائط فاسدہ سے جو مقتضائے عقد میں سے نہیں ہوتی جن کا بیان باب البیع گزرا ہے۔ (بحر الرائق، کتاب الاجارہ، باب الاجارۃ الفاسدۃ ،جلد7،صفحہ311،دار الکتاب الاسلامی، بیروت)

شروط فاسدہ کو علماء نے سود کے زمرے میں داخل کیا ہے کیونکہ عقد معاوضہ میں بلاعوض ملنے والی زیادتی کو سود کہتے ہیں اور بیع(خریداری) یا اس کی مثل معاملات میں اگر شرط فاسد لگائی جائے تو اس سے بھی ایک ایسی ہی زیادتی یا نفع حاصل ہوتا ہے جس کا عوض کچھ معین نہیں ہوتالہٰذا یہ من جملہ سود ہے۔ علامہ کاسانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں

’’ھذہ الشروط بعضھا فیہ منفعۃ زائدۃ ترجع إلی العاقدین أو إلی غیرھما وزیادۃ منفعۃ مشروطۃ فی عقد البیع تکون ربا والربا حرام والبیع الذی فیہ ربا فاسد‘‘

ترجمہ: ان میں کچھ شرائط تو وہ ہیں کہ جن میں عاقدین یا ان کے علاوہ کسی کا نفع پایا جاتا ہے اور نفع کی ایسی زیادتی اگر عقد بیع میں مشروط ہو تو وہ سود ہوتی ہے اور سود حرام ہے ۔ اور جس بیع میں سود پایا جائے وہ بیع فاسد ہو تی ہے۔

(بدائع، کتاب البیوع ، فصل فی شرائظ الصحۃ، جلد5،صفحہ175، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

پھر بعض کمپنیاں یہ ایڈوانس رقم سکیورٹی کے طور پر نہیں لیتی ہیں بلکہ ممبر فیس لیتی ہیں جو بعد میں واپس نہیں کی جاتی ۔ اس رقم کے بدلے میں ممبر شپ کے خواہشمند فرد کو کوڈ اور پوائنٹ وغیرہ دے دیئے جاتے ہیں حالانکہ کوڈ یا پوائنٹ شرعی طور پر مال نہیں کہ قابل بیع (خرید و فروخت ) یا قابلِ معاوضہ ہو کیونکہ شریعت کی نظر میں مال وہ ہے کہ جس کی طرف طبائع میل کریں اور وقت حاجت کیلئے ذخیرہ رکھا جائے ، یہ کوڈ و پوائنٹ ان دونوںوصفوں سے خالی ہیں،کشف الکبیر و بحرالرائق وردالمحتار میں ہے

” المراد بالمال مایمیل الیہ الطبع ویمکن ادخارہ لوقت الحاجۃ“

ترجمہ: مال سے مراد وہ چیز ہے جس کی طرف طبیعت میلان کرے اور اس کو حاجت کے وقت کیلئے ذخیرہ کیا جاسکتا ہو۔ (ردالمحتار ، کتاب البیوع، جلد4، صفحہ501، دار الفکر، بیروت)

لہٰذا شرعی طور پر یہ بیع نہیں ہو سکتی کیونکہ مال کے بدلے میں مال نہیں دیا جارہا بلکہ شریعت کی نظر میں یہ رقم بلا عوض دی جا رہی ہے اور یہ تو ظاہر ہے کہ دینے والے کا مقصد اس میں اپنا کام نکالنا ہے کیونکہ وہ رقم جمع کروا کر اپنے آپ کو کمپنی کا ممبر بنانا چاہتا ہے اور شرعی طور پر اپنا کام بنانے کے لئے صاحبِ امر کو کچھ دینا رشوت کہلاتا ہے ۔ فقیہِ عصر حضرت مولانامفتی نظام الدین رضوی دام ظلہ العالی اسی طرح کی کمپنیوں کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’اس کے ناجائز ہونے کی چوتھی وجہ یہ ہے کہ فیس کی شرعی حیثیت رشوت کی ہے جو یقینا حرام ہے ، وجہ یہ ہے کہ اپنا یا کسی کا بھی کام بنانے کے لئے ابتداء ً صاحبِ امر کو کچھ روپے وغیرہ دینا رشوت ہے اور یہاں کمپنی کو فیس اس لئے دی جاتی ہے کہ اسے اجرت پر ممبر سازی کا حق دے دیا جائے اورفیس کے مقابل کوئی چیز نہیں ہوتی ۔ ‘‘(ماہنامہ اشرفیہ،شمارہ مئی2008؁ء، صفحہ38)

المعجم الاوسط میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں

’’الراشی والمرتشی فی النار‘‘

ترجمہ: رشوت دینے والا اور رشوت لینے والا دونوں جہنمی ہیں۔ ( المعجم الاوسط ، جلد2، صفحہ295، مطبوعہ دار الحرمین، قاھرہ)

البحر الرائق شرح کنزالدقائق میں رشوت کی تعریف کے متعلق لکھا ہے

”ما یعطیہ الشخص للحاکم وغیرہ لیحکم لہ اویحملہ علی ما یرید “

ترجمہ:رشوت یہ ہے کہ کوئی شخص حاکم یا کسی اور کو کچھ دے تاکہ وہ اس کے حق میں فیصلہ کردے یا حاکم کو اپنی منشاء پوری کرنے پر ابھارے۔(البحر الرائق شرح کنز الدقائق،کتاب القضاء،جلد6،صفحہ285، مطبوعہ دار الکتاب الاسلامی)

دھوکا دہی اور نقصان

اس میں دھوکے کا بھی عنصر ہے بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ فیس ،سکیورٹی،پیکج کے نام پر کمپنی اور لوگ پیسے لے کرغائب ہوجاتے ہیں اور کثیر لوگوں کا مالی نقصان ہوجاتا ہے اور بعض اوقات اپنے ہی لوگوں سے جعلی طریقے سے subscribe کرواکے یوٹیوب وغیرہ کمپنیوں کو دھوکا دیا جاتا ہے ۔نیز جو طالب علم اپنی اسائمنٹ خود نہیں لکھتے بلکہ یوں ان اداروں کو پیسے دے کر لکھواتے ہیں تو طالب علموں کا یہ عمل بھی دھوکہ دہی ہے کہ آگے اسکول کالجوں میں یہی ظاہر کرتے ہیں کہ یہ کام میں نے کیا ہے جبکہ خود نہیں کیا ہوتا۔

صحیح مسلم میں ہےنبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

”من غش فلیس منی“

ترجمہ:جو دھوکا دے وہ مجھ سے نہیں ۔ (صحیح مسلم ،کتاب الایمان،جلد 1،صفحہ99،مطبوعہ دار احیاء التراث العربی ،بیروت)

فتاویٰ رضویہ میں سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتےہیں:

’’غدر و بد عہدی مطلقاً سب سے حرام ہے مسلم ہو یا کافر، ذمی ہو یا حربی، مستامن ہو یا غیر مستامن، اصلی ہو یا مرتد ۔ ‘(فتاوی رضویہ، جلد 14، صفحہ 139، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاهور)

المعجم الاوسط میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

’’لاضرر ولاضرار فی الاسلام ‘‘

ترجمہ: اسلام میں نہ ضررہے، نہ دوسرے کو ضرر دینا۔ (المعجم الاوسط ، جلد5، صفحہ283،مطبوعہ دار الحرمین، قاھرہ)

*بے حیائی اور بے راہ روی

اس میں ایسے چینلرز اور ویڈیو کو بھی پذیرائی دی جاتی ہے جس میں حیا سوز مناظر اور دیگر مواد موجود ہوتا ہے پھر اس میں آنے والے اشتہارات وغیرہ جس میں بےحیائی اور بےپردگی ہونا اور اس کو دیکھنا اورپھیلانا کہ لوگ دیکھیں ناجائز وگناہ ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے

” اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ“

لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔(سورۃ النور آیت 19 پارہ 18)

ارشاد باری تعالیٰ ہے

”لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَ“

اور ظاہری و باطنی بے حیائیوں کے پاس نہ جاؤ ۔(سورۃ الانعام آیت 151 پارہ 7)

تفسیر صراط الجنان میں ہے:

”(اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: کہ مسلمانوں میں بے حیائی کی بات پھیلے۔)اشاعت ِفاحشہ میں ملوث افراد کو نصیحت: اشاعت سے مراد تشہیر کرنا اور ظاہر کرنا ہے جبکہ فاحشہ سے وہ تمام اَقوال اور اَفعال مراد ہیں جن کی قباحت بہت زیادہ ہے اور یہاں آیت میں اصل مراد زِنا ہے۔

البتہ یہ یاد رہے کہ اشاعتِ فاحشہ کے اصل معنیٰ میں بہت وسعت ہے چنانچہ اشاعتِ فاحشہ میں جو چیزیں داخل ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں ۔

…حرام کاموں کی ترغیب دینا۔

… ایسی کتابیں لکھنا، شائع کرنا اور تقسیم کرنا جن میں موجود کلام سے لوگ کفر اور گمراہی میں مبتلا ہوں ۔

…ایسی کتابیں ، اخبارات، ناول، رسائل اورڈائجسٹ وغیرہ لکھنا اور شائع کرنا جن سے شہوانی جذبات متحرک ہوں ۔

…فحش تصاویر اور وڈیوز بنانا، بیچنا اور انہیں دیکھنے کے ذرائع مہیا کرنا۔

…ایسے اشتہارات اور سائن بورڈ وغیرہ بنانا اور بنوا کر لگانا، لگوانا جن میں جاذِبیت اور کشش پیدا کرنے کے لئے جنسی عُریانِیَّت کا سہارا لیا گیا ہو۔

… حیا سوز مناظر پر مشتمل فلمیں اور ڈرامے بنانا،ان کی تشہیر کرنا اور انہیں دیکھنے کی ترغیب دینا۔

…فیشن شو کے نام پر عورت اور حیا سے عاری لباسوں کی نمائش کرکے بے حیائی پھیلانا۔

…زنا کاری کے اڈّے چلانا وغیرہ۔

ان تمام کاموں میں مبتلا حضرات کو چاہئے کہ خدارا! اپنے طرزِ عمل پر غور فرمائیں بلکہ بطورِ خاص ان حضرات کو زیادہ غورکرناچاہئے جو فحاشی وعریانی اور اسلامی روایات سے جدا کلچر کو عام کر کے مسلمانوں کے اخلاق اور کردار میں بگاڑ پیدا کر رہے ہیں اور بے حیائی، فحاشی و عریانی کے خلاف اسلام نے نفرت کی جو دیوار قائم کی ہے اسے گرانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ انہیں ہدایت اور عقلِ سلیم عطا فرمائے۔(صراط الجنان،جلد6،صفحہ596،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

اگر بے حیائی والے چینل و تصاویر نہ بھی اپلوڈ کی جائیں تب بھی دیگر شرعی خرابیوں کے سبب یہ جائز نہیں۔

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبہ

ممبر فقہ کورس

22ربیع الاول 1445ھ09 اکتوبر 2023ء

نظرثانی و ترمیم:

مفتی محمد انس رضا قادری

اپنا تبصرہ بھیجیں