کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ کرونا کی بڑھتی ہوئی وبا کے سبب کیا مرد گھر میں اعتکاف کرسکتے ہیں؟

بسم الله الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوهاب اللهم هدایة الحق والصواب

مردوں کے حق میں اعتکاف ایسی عبادت ہے، جو مسجد شرعی کے ساتھ خاص ہے گھر ادا کیا تو اعتکاف نہ ہو گا

البتہ عورت گھر میں اعتکاف کریگی۔

قران پاک میں باری تعالی ارشاد فرماتا ہے

{وَلاَ تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ}

اور عورتوں سے مباشرت نہ کرو اس حال کہ تم مسجد میں معتکف ہو

[البقره، 2: 187]

اور نبی کریم علیہ السلام کا معمول تھا کہ مسجد ہی میں اعتکاف کرتے

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يُونُسَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ نَافِعًا، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَهُ عَنْ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ  يَعْتَكِفُ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ  . قَالَ نَافِعٌ:‏‏‏‏ وَقَدْ أَرَانِي عَبْدُ اللَّهِ الْمَكَانَ الَّذِي كَانَ يَعْتَكِفُ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْمَسْجِدِ.

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرتے تھے۔ نافع کا بیان ہے کہ عبداللہ بن عمر نے مجھے مسجد کے اندر وہ جگہ دکھائی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف کیا کرتے تھے۔

(ابو داود شریف ۔ح ٢۴٦٦)

اور بیہقی شریف میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فرمان کہ

أخرج البیھقي عن ابن عباس رضي اللہ عنھما قال: ”إن أبغض الأمور إلی اللہ تعالی البدع وإن من البدع الاعتکاف في المساجد التي في الدور“

حضرت عبد اللہ بن عباس نے فرمایا کہ سب سے زیادہ مبغوض وناپسندیدہ چیزیں اللہ تعالی کی نظر میں بدعات ہیں اور گھروں کی مساجد (گھروں میں عبادت کے لیے خاص کیے گئے کمروں یا حصوں) میں (مردوں کا) اعتکاف بھی بدعات میں سے ہے ۔

(فتح القدیر لابن الھمام، کتاب الصوم، باب الاعتکاف، ۲: ۱۰۹، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)۔

اور کتاب الاصل میں ہے سیدنا حذیفہ کے حوالے سے

وبلغنا عن حذیفة

أنہ قال: ”لا اعتکاف إلا في مسجد جماعة“

ہمیں سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے یہ بات پہنچی ہے کہ اعتکاف جماعت والی مسجد میں ہی ہو گا

(کتاب الأصل، کتاب الصوم، باب الاعتکاف، ۲: ۱۸۳، ط: وزارة الأوقاف والشوٴون الإسلامیة، قطر)۔

فتاوی شامی میں اعتکاف کی شرائط بیان کرتے ہوئے فرمایا

وأما شروطہ فمنھا:…مسجد الجماعة، فیصح فی کل مسجد لہ أذا ن وإقامة ھوالصحیح کذا فی الخلاصة

کہ اعتکاف کی شرائط میں جماعت والی مسجد کا ہونا شرط ہے اور اعتکاف ہر ازان و اقامت والی مسجد میں ہو جائیگا

(الفتاوی الھندیة،کتاب الصوم، الباب السابع في الاعتکاف، ۱: ۲۱۱، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)۔

بدائع الصنائع میں ہے

وھذہ العبادة -عبادة الاعتکاف- لا توٴدی إلا في المسجد

کہ عبادت اعتکاف یہ مسجد میں ہی ادا ہو گی

(بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، کتاب الاعتکاف، فصل في شرائط صحتہ، ۳: ۶، ط: دار الحدیث، القاھرة)

عورتیں اعتکاف گھر میں کرینگی مسجد میں نہیں کر سکتیں

مراقی الفلاح میں ہے

(وللمرأة الاعتکاف في مسجد بیتھا وھو محل عینتہ) المرأة (للصلاة فیہ)،فإن لم تعین لھا محلاً لا یصح الاعتکاف فیہ، وھي ممنوعة عن حضور المساجد ۔۔

کہ عورت مسجد بیت میں معین کردہ جگہ پر اعتکاف کریگی اور اس کا مسجد میں حاضر ہونا ممنوع ہے

(مراقی الفلاح مع حاشیة الطحطاوی علیہ، کتاب الصوم، باب الاعتکاف، ص:۷۰۰، ط: دار الکتب العلمیة، بیروت)

واللہ اعلم و رسولہ اعلم عزوجل صلی اللہ علیہ والہ وسلم

مجیب ۔؛ مولانا فرمان رضا مدنی

اپنا تبصرہ بھیجیں