دیہات میں جہاں پانچ دس گھر ہیں وہاں جمعہ پڑھنا کیسا ہے؟

عرض ہے کہ دیہات میں جہاں پانچ دس گھر ہیں وہاں جمعہ پڑھنا کیسا ہے؟ ایسے علاقوں میں جمعے کی نماز کی

 جماعت قائم ہوتی ہے مگر ظہر کی نہیں ہوتی۔۔ اگر کہتے کہ ایسا کیوں کرتے ہیں تو جواب دیتے کہ فلاں بزرگ نے قائم کیا ہے تو شروع سے ہی اسی طور پر ہم لوگ پڑھتے آرہے ہیں_ ایسا کرنا اور کہنا کہاں تک درست ہے رہنمائی فرمائیں؟

(٢) جہاں پہ دو جماعتیں جمعے اور ظہر کی دو تکبیروں  کے ساتھ ایک ہی جگہ ایک ہی مصلّے پہ ایک ہی امام کی امامت میں ہوتی ہیں یہ کس حد تک درست ہیں.

(٣) جہاں پہ دو جماعتیں تو ہوتی ہیں مگر وہاں قبل الجمعه کی سنت پڑھی جاتی ہے اگر قبل الجمعه کے بجائے ظہر کی چار رکعت سنت کا اہتمام کیا جائے تو کیسا رہے گا؟

الجواب بعون الملک الوہاب ھدایۃ الحق والصواب

(١).جمعہ کے صحیح ہونے کیلئے شہر یا فناء شہر شرط ہے دیہات میں جمعہ جائز نہیں ہوتا. لیکن اگر عوام پڑھے تو انہیں منع نہ کیا جائے کہ وہ جس طرح بھی اللہ و رسول کا نام لیں غنیمت ہے

لیکن مسئلہ شرعیہ سے ضرور آگاہ کیا جائے کہ دیہات جہاں تھوڑے سے احباب ہوں وہاں جمعہ نہیں ہوتا۔بلکہ ظہر پڑھنا ضروری ہوگا.البتہ ایک نادر روایت میں جمعہ جائز ہونے کا بیان ہے کہ اتنے افراد ہوں کہ گاؤں کی بڑی مسجد ان سے بڑھ جائے تو وہاں جمعہ جائز ہے.

فقہ حنفی کی مشہور کتاب “الھدایہ”میں یے

لا تصح الجمعة إلا في مصر جامع، أو في مصلى المصر، ولا تجوز في القرى  لقوله عليه الصلاة والسلام “لا جمعة ولا تشريق ولا فطر ولا أضحى إلا في مصر جامع”

جمعہ شہر کی جامع مسجد یا شہر کی وہ جگہ جو نماز کیلئے خاص ہے اس میں ہی صحیح ہوتی ہے اور دیہات میں جائز نہیں ہے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کی وجہ سے” نہ ہی جمعہ اور نہ ہی (تکبیر)تشریق  اور نہ ہی (نماز عيد)الفطر اور نہ (نماز عيد)الاضحی جائز ہے مگر شہر کی جامع مسجد میں”

(الهدايه باب اصلاة الجمعة ج1 ص82 دار احياءالتراث العربى بيروت )

“فتاوی شامی” میں ہے

لو صلوا في القرى لزمهم أداء الظهر

اگر دیہات میں لوگوں نے جمعہ پڑھ لیا تو ظہر کی نماز ادا کرنا ان پر لازم ہے

(فتاوی شامی باب الجمعۃ  ج2 ص138 دارالفکر بیروت)

“فتاوی رضویہ “میں ہے

جمعہ وعیدین دیہات میں ناجائز ہیں اور ان کا پڑھنا گناہ، مگر جاہل عوام اگر پڑھتے ہوں تو ان کو منع کرنے کی ضرورت نہیں کہ عوام جس طرح ﷲ ورسول کا نام لے لیں غنیمت ہے

(فتاوی رضویہ ج8 ص 387 رضافاؤنڈیشن لاہور)

.البتہ ایک نادر روایت میں جمعہ جائز ہونے کا بیان ہے کہ اتنے افراد ہوں کہ گاؤں کی بڑی مسجد ان سے بھر جائے تو وہاں جمعہ جائز ہے.

“فتاوی رضویہ” میں اعلی حضرت علیہ الرحمۃ اسی طرح کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

ہاں ایک روایت نادرہ امام ابویوسف رحمۃﷲ تعالٰی علیہ سے یہ آئی ہےکہ جس آبادی میں اتنے مسلمان مرد عاقل بالغ ایسے تندرست جن پر جمعہ فرض ہوسکے آباد ہوں کہ اگر وہ وہاں کی بڑی سے بڑی مسجد میں جمع ہوں تو نہ سما سکیں یہاں تک کہ انھیں جمعہ کے لئے مسجد جامع بنانی پڑے وہ صحتِ جمعہ کےلئے شہر سمجھی جائے گی ، امام اکمل الدین بابرتی عنایہ شرح ہدایہ میں فرماتے ہیں:

(وعنہ) ای عن ابی یوسف ( انھم اذا اجتمعوا) ای اجتمع من تجب علیھم الجمعۃ لاکل من یسکن فی ذلك الموضع من الصبیان والنساء والعید لان من تجب علیھم مجتمعون فیہ عادۃ قال ابن شجاع احسن ماقیل فیہ اذاکان اھلھا، بحیث لو اجتمعوا ( فی اکبر مساجد لم یسعھم ذلك )حتی احتاجوا الی بناء مسجد آخر للجمعۃ

( اور ان سے ) یعنی امام ابویوسف سے ہے ( جب وہ جمع ہوں) یعنی وہ لوگ جن پر جمعہ لازم ہے نہ کہ تمام وہ لوگ جو وہاں سکونت پذیر ہیں مثلًا بچے، خواتین اور غلام، ابنِ شجاع نے کہا کہ اس بارے میں سب سے بہتر قول یہ ہے کہ جب جمعہ کے اہل وہاں جمع ہوں ( سب سے بڑی مسجد میں ، اور اس میں ان کی گنجائش نہ ہو) حتی کہ وہ جمعہ کے لئے ایك اور مسجد بنانے پر مجبور ہوں.

جس گاؤں میں یہ حالت پائی جائے اس میں اس روایت نوادر کی بنا پر جمعہ وعیدین ہو سکتے ہیں اگر چہ اصل مذہب کے خلاف ہے مگر اسے بھی ایك جماعتِ متاخرین نے اختیار فرمایا اور جہاں یہ بھی نہیں وہاں ہر گز جمعہ خواہ عید مذہب حنفی میں جائز نہیں ہو سکتا بلکہ گناہ ہے، (فتاوی رضویہ باب الجمعہ ج8 ص347 مطبوعہ رضافاؤنڈیشن لاہور)

(۲).جب جمعہ دیہات میں ہوتا ہی نہیں بلکہ ظہر ذمہ پر باقی رہتی ہے تو ظہر بدستور اذان و اقامت سے جماعت کے ساتھ ہی ادا کی جائے گی.

“فتاوی عالمگیری”میں ہے

ومن لا تجب عليهم الجمعة من أهل القرى والبوادي لهم أن يصلوا الظهر بجماعة يوم الجمعة بأذان وإقامة

اور جس پر جمعہ فرض نہیں ہے یعنی گاؤں ٬ دیہات والے ان کےلئے ضروری ہے کہ وہ جمعہ کے دن اذان واقامت سےظہر کی نماز باجماعت ادا کریں.

( الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصلاۃ، الباب السادس عشر في صلاۃ الجمعۃ، ج 1 ص145 مطبوعہ دارالفکر)

“فتاوی فیض الرسول” میں ہے

جس طرح اور دنوں میں ظہر کی نماز باجماعت پڑھنا واجب ہے ایسے ہی دیہاتوں میں جمعہ کے دن بھی ظہر کی نماز باجماعت پڑھنا ضروری ہے

(فتاوی فیض الرسول باب صلوۃ الجمعۃ ج1 ص 421٬422 مطبوعہ شبیر برادر لاہو)

“بہار شریعت “میں ہے

گاؤں میں جمعہ کے دن بھی ظہر کی نماز اذان و اقامت کے ساتھ باجماعت پڑھیں.

(بہارشریعت جمعہ کا بیان حصہ 4 ص 779 مکتبۃ المدینہ)

(٣).جب دیہات میں جمعہ جائز نہیں تو قبل الجمۃ اور بعد الجمعۃ کی سنتیں پڑھنا بھی درست نہیں بلکہ سنت ظہر ہی ادا کی جائے گی.

“فتاوی فیض الرسول”میں ہے

تو جب دیہات میں جمعہ کی نماز جائز نہیں تو قبل الجمعہ اور بعد الجمعہ کی نیت سے سنتیں پڑھنا بھی صحیح نہیں  کہ شریعت کی حانب سے قبل الجمعہ اور بعد الجمعہ کی سنتوں کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور جب ظہر کی نماز ساقط نہیں ہوتی تو اس کی سنتوں کا پڑھنا لازمی ہے کہ جمعہ کے دن بھی ظہر کی سنتوں کا مطالبہ بدستور باقی ہے.

(فتاوی فیض الرسول باب صلوۃ الجمعۃ ج1 ص 407 مطبوعہ شبیر برادر لاہور)

مجیب: عبدہ المذنب ابو معاویہ زاہد بشیر مدنی

اپنا تبصرہ بھیجیں