اگر جمعہ کی پہلی سنتیں رہ گئیں تو جمعہ کے فرضوں کے بعد اس کو کب پڑھیں گے؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین اس بارے میں کہ اگر جمعہ کی پہلی سنتیں رہ گئیں تو جمعہ کے فرضوں کے بعد اس کو کب پڑھیں گے؟ پہلے رہ گئی ہوئی سنتیں پڑھیں گے یا جمعہ کے بعد جو چار سنتیں ہیں ان کو ادا کرکے رہ گئی ہوئی سنتیں پڑھیں گے؟برائے کرم ! رہنمائی فرمادیں۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

اگر جمعہ کی پہلی سنتیں رہ گئیں تو اس میں علمائے احناف کے دو اقوال ہیں، پہلا قول یہ ہے کہ جمعہ کے فرض کے بعد پڑھے اور دوسرا قول یہ ہے کہ فرضوں کے بعد والی چار سنتیں پڑھے، پھر جو سنتیں رہ گئی تھیں، وہ پڑھے اور پھر بقیہ دو سنتیں اور دو نوافل پڑھے۔ جبکہ وقت باقی ہو اور یہی قول زیادہ راجح ہے۔

سنن ابن ماجہ میں ہے: عن عائشة، قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم «إذا فاتته الأربع قبل الظهر، صلاها بعد الركعتين بعد الظهر
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، فرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی جب ظہر سے پہلے کی چار سنتیں چھوٹ جاتیں تو انہیں دو ستنوں کے بعد ادا فرماتے۔
سنن ابن ماجہ، جلد2، صفحہ237، مطبوعہ دار الرسالة العالميہ، بیروت، لبنان)

نور الایضاح میں ہے: وقضى السنة التي قبل الظهر في وقته قبل شفعه۔
ترجمہ: ظہر سے قبل کی سنتیں وقت کے اندر دو رکعتوں سے قبل ادا کرے۔
(نور الایضاح، صفحہ93، مطبوعہ مكتبة العصريہ، بیروت لبنان)

مراقی الفلاح میں ہے: “وقضى السنة التي قبل الظهر” في الصحيح “في وقته قبل” صلاة “شفعة” على المفتي به كذا في شرح الكنز للعلامة المقدسي وفي [فتاوى العتابي] : المختار تقديم الاثنتين على الأربع وفي مبسوط شيخ الإسلام هو الأصح لحديث عائشة رضي الله عنها أنه عليه السلام كان إذا فاتته الأربع قبل الظهر يصليهن بعد الركعتين وحكم الأربع قبل الجمعة كالتي قبل الظهر۔
ترجمہ: مذہب صحیح میں مفتی بہ قول کے مطابق ظہر سے قبل کی سنتیں اسکے وقت کے اندر دو رکعتوں سے قبل ادا کی جائیں گی، اسی طرح کنز کی شرح میں علامہ مقدسی سے مروی ہے، فتاویٰ عتابی میں ہے کہ: مختار مذہب یہ ہے کہ دو سنتوں کو چار سنتوں پر مقدم کیا جائے گا، مبسوط سرخسی میں شیخ الاسلام سے مروی ہے کہ یہی اصح مذہب ہے، کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث ہے کہ: رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ والہ وسلم کی جب ظہر سے پہلے کی چار سنتیں چھوٹ جاتیں تو انہیں دو ستنوں کے بعد ادا فرماتے اور جمعہ سے قبل کی چار سنتوں کا حکم، ظہر سے پہلے کی چار سنتوں کی طرح ہے۔
(مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح، صفحہ175-176، مطبوعہ مكتبة العصريہ، بیروت لبنان)

کنزالدقائق میں ہے: وقضى التي قبل الظهر في وقته قبل شفعه۔
ترجمہ: ظہر سے قبل کی سنتیں اس کے وقت میں دو سنتوں سے قبل ادا کرے گا۔
(کنزالدقائق، صفحہ179، مطبوعہ دار السراج، ترکی)

نهر الفائق شرح كنز الدقائق میں ہے: (وقضى) السنة (التي قبل الظهر في وقته) هذا قول الجمهور وهو الصحيح لما عن عائشة أنه عليه الصلاة والسلام (فاتته الأربع قبل الظهر فقضاها) ومن المعلوم أن تسميته قضاء مجاز ولذا لا ينوي القضاء فيها على الأصح كما في (الكافي) (قبل شفعه) قيل: هذا قول الثاني وذكر في (المحيط) قول الإمام معه والمذكور في (المنظومة) وشرحها أنه قول محمد وعندهم يقدم الشفع قال في (المجمع): وهو الأصح قال الإتقاني: ويحتمل أن يكون عن كل روايتان إلا أنهم جازمون بترجيح تقديم الأربع وإن اختلفوا في خصوص القائل ففي (فتاوى العتابي) قول أبي يوسف في تقديم الأربع أصح وعليه الفتوى،
ترجمہ: ظہر سے قبل کی سنتیں اس کے وقت کے اندر ادا کی جائیں گی یہ جمہور علماء کا قول ہے اور یہی صحیح ہے، کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ والہ وسلم کی جب ظہر سے پہلے کی چار سنتیں چھوٹ جاتیں تو انہیں قضا فرماتے، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس کو قضا کا نام مجازی طور پر دیا گیا ہے کیونکہ اصح مذہب پر ان میں قضا کی نیت نہیں کی جاتی جیساکہ کافی میں ہے، (دو سنتوں سے قبل ادا فرماتے)، یہ دوسرا قول ہے، محیط میں امام اعظم علیہ الرحمہ کا قول ذکر کیا گیا اور اسے اشعار کی صورت میں بیان کیا گیا، اس کی شرح یہ ہے کہ وہ امام محمد علیہ الرحمہ کا قول ہے، ان کے نزدیک دو رکعتوں کو مقدم کیا جائے گا، مجمع میں فرماتے ہٰن کہ یہ قول اصح ہے، اتقانی فرماتے ہیں کہ: دونوں روایتوں کا احتمال موجود ہے مگر یہ کہ ان سب نے چار سنتوں کو مقدم کرنے کی ترجیح دیتے ہوئے جزم فرمایا، اگرچہ اس بات کے کہنے والوں میں بھی اختلاف ہے، فتاویٰ عتابی میں ہے کہ چار سنتوں کو مقدم کرنے کا قول امام ابو یوسف علیہ الرحمہ کا ہے جوکہ اصح ہے اور اسی پر فتویٰ ہے۔
نهر الفائق شرح كنز الدقائق، جلد1، صفحہ311، مطبوعہ دار الكتب العلميہ، بیروت لبنان)

درمختار میں ہے: (ثم يأتي بها) على أنها سنة (في وقته) أي الظهر (قبل شفعه) عند محمد، وبه يفتى۔
ترجمہ: پھر جمعہ سے قبل کی ان چار رکعتوں کو اس کے وقت(ظہر) کے اندر دو سنتوں سے قبل ادا کرے کیونکہ وہ سنت ہیں، امام محمد علیہ الرحمہ کے نزدیک اور اسی پر فتویٰ ہے۔
(درمختار، صفحہ96، مطبوعہ دار الكتب العلميہ، بيروت، لبنان)

ردالمحتار میں ہے: (قوله وبه يفتى) أقول: وعليه المتون، لكن رجح في الفتح تقديم الركعتين. قال في الإمداد: وفي فتاوى العتابي أنه المختار، وفي مبسوط شيخ الإسلام أنه الأصح لحديث عائشة «أنه – عليه الصلاة والسلام – كان إذا فاتته الأربع قبل الظهر يصليهن بعد الركعتين» وهو قول أبي حنيفة، وكذا في جامع قاضي خان
ترجمہ: (ان کا یہ قول: اسی پر فتویٰ دیا جاتا ہے) میں کہتا ہوں کہ: متون بھی اسی پر ہیں، لیکن فتح القدیر میں دو سنتوں کو مقدم کرنے کو راجح قرار دیا گیا ہے، الامداد اور فتاویٰ عتابی میں اسی کو مختار کہا گیا ہے، اورمبسوط میں شیخ الاسلام فرماتے ہیں کہ: یہی قول اصح ہے کیونکہ حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ والہ وسلم کی جب ظہر سے پہلے کی چار سنتیں چھوٹ جاتیں تو انہیں دو رکعتوں کے بعد قضا فرماتے، یہ قول امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کا ہے اور اسی طرح جامع قاضی خان میں ہے۔
(ردالمحتار، جلد2، صفحہ59، مطبوعہ دار الفكر، بيروت، لبنان)

فتاویٰ رضویہ میں ہے: ظہر کی پہلی چار سنتیں جو فرض سے پہلے نہ پڑھی ہو تو بعد فرض بلکہ مذہب ارجح پر بعد سنت بعدیہ کے پڑھیں بشرطیکہ ہنوز وقت ظہر باقی ہو نص علی کل ذلک فی غیر ما کتاب کردالمحتار ( اس پر متعدد کتب مثلاً ردالمحتار میں تصریح ہے۔
(فتاویٰ رضویہ، جلد8، صفحہ148، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاہور، پاکستان)

بہار شریعت میں ہے: ظہر یا جمعہ کے پہلے کی سنت فوت ہوگئی اور فرض پڑھ ليے تو اگر وقت باقی ہے بعد فرض کے پڑھے اور افضل یہ ہے کہ پچھلی سنتيں پڑھ کر ان کو پڑھے۔
(بہار شریعت، جلد1، حصہ4، 664، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی، پاکستان)

قانون شریعت میں ہے: ظہر یا جمعہ کے پہلے کی سنت چھوٹ گئی اور فرض پڑھ لی تو اگر وقت باقی ہے تو بعد ِفرض کے پڑھے اورا فضل یہ ہے کہ پچھلی سنتیں پڑھ کے اِن کو پڑھے۔
(قانون شریعت، صفحہ212، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی، پاکستان)

واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ اعلم باالصواب

کتبہ

محمد منور عطاری مدنی

اپنا تبصرہ بھیجیں