جمعے کی سنتیں شروع کیں اور امام نے خطبہ جمعہ شروع کردیا تو کیا وہ سنتوں کو جاری رکھے یا توڑ دے؟

سوال: ایک شخص نے جمعے کی سنتیں شروع کیں اور امام نے خطبہ جمعہ شروع کردیا تو کیا وہ سنتوں کو جاری رکھے یا توڑ دے؟

─── ◈☆◈ ───
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

اگر کوئی شحص جمعہ کی سنتیں پڑھنا شروع کر چکا کہ امام خطبہ کے لئے کھڑا ہوا راجح اور اصح قول کے مطابق یہ اپنی سنتیں مکمل کرے کیونکہ یہ ایک ہی نماز ہے البتہ اگر نوافل ہوں تو دو پر سلام پھیر دے۔
تنویر الابصار ودرالمختار میں ہے
” وکذا سنۃ الظھر و سنۃالجمعۃ اذا اقیمت او خطب الامام یتمھا ار بعا علی القول الراجح لانھا صلاۃ واحدۃ“
ترجمہ:اسی طرح ظہر کی سنتیں اقامت سے پہلے شروع کیں یا جمعے کی سنتیں خطبے سے پہلے تو راجح قول کے مطابق انھیں پوراکرے گا کہ یہ ایک ہی نماز ہے۔(تنویرمع در،کتاب الصلوۃ،باب ادارک الفریضہ،ص 611،مکتبہ رشیدیہ ،کوئٹہ)
فتاوی عالگیری میں ہے
” اذا شرع فی الاربع قبل الجمعہ ثم خرج الامام یتم اربعا وھو الصحیح والیہ مال الامام الصدر الاجل الشہید الاستاذحسام الدین کذا فی الظھیریہ“
ترجمہ ایک بندے نے چار رکعتیں شروع کیں پھر امام خطبہ کے لئے نکلا تو وہ چار پوری کر لے یہی صحیح ہے اسی کی طرف استاد حسام الدین مائل ہوئے ہیں ایسے ہی ظہیریہ میں ہے۔(عالمگیری، جلد1 ،ص53 ،باب فی المواقیت، الفصل الثالث ، اسلامی کتب خانہ)
امام اہلسنت علیہ الرحمۃ اس پر تفصیلی گفتگو کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
”غرضیکہ یہ مسئلہ اس قبیل سے ہے کہ جس پر انسان چاہے عمل کرے تو کوئی اعتراض نہیں ہے اور میں خود دوسرے قول (چاررکعات پوری کرنے)کی طرف اپنے آپ کو مائل پاتا ہوں۔“(فتاوی رضویہ، کتاب الصلوۃ،باب ادراک الفریضہ جلد 8، ص 136رضا فاونڈیشن لاہور)
ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
”قول ِ اخیر(چار رکعات پوری کرنے کو محیط ،امام عبدالرشید ، امام ابو حنیفہ ، والوالجی اما عیسی بن محمد ، امام ظھیر الدین مرغینانی، … وغیرہ نے ھوالصحیح،ھوالاصح،فی الاصح،علی الراجح،صحح المشائخ،صححہ اکثر المشائخ(فرمایا)“(فتاوی رضویہ،کتاب الصلوۃ،باب ادراک الفریضہ، جلد 8، ص 474رضا فاونڈیشن لاہور)
ایک دوسرے مقام پر شرنبلالیہ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں:
” میں کہتا ہوں صحیح اس کے خلاف ہے اور وہ یہ ہیکہ جمعہ کی چار سنتیں مکمل کرے اور اسی پر فتوی ہے ۔“فتاوی رضویہ ،جلد 8 ،ص 475 ،رضا فاؤنڈیشن لاہور)
بہار شریعت میں ہے:
”جمعے کی سنتیں شروع کیں تھیں کہ امام خطبے کے لئے اپنی جگہ سے اٹھاچاروں رکعتیں پوری کرلے۔“(بہارشریعت،نماز کے وقتوں کا بیان،ص456،،مکتبتہ المدینہ کراچی)
حاشیۃالطحطاوی میں ہے
” فلو شرع قبل خروج الامام ثم خرج لایقطعھالعدم قصد ذلک بل یتمھا رکعتین ان کانت نفلا واربعا ان کانت سنۃ الجمعۃ علی الاصح“
ترجمہ:اگر کسی نے جمعے میں خطیب کے نکلنے سے پہلے نماز شروع کردی اور پھر وہ نکلا تو یہ نما ز نہیں توڑے گاکہ اس نے قصدا ایسا نہیں کیا اور اصح قول کے مطابق نفل نماز تھی تو دو پوری کرے اور جمعے کی سنتیں تھیں تو چار پوری کرے۔(حاشیہ طحطاوی،کتاب الصلوۃ،فصل فی الاوقات المکروھۃ،ص189،قدیمی کتب خانہ کراچی)
کتبہ
ابوبکر نیلمی

اپنا تبصرہ بھیجیں