جو شخص صحیح تلفظ نہیں کر سکتا یا ایک حرف کو دوسرے حرف کے ساتھ تبدیل کرتا ہے تو اس کی امامت درست نہیں۔

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ جس کی قراءت درست نہ ہو اس کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جو شخص صحیح تلفظ نہیں کر سکتا یا ایک حرف کو دوسرے حرف کے ساتھ تبدیل کرتا ہے تو اس کی امامت درست نہیں۔

دُرمختار میں ہے:

لا یصح اقتداء غیر الالثغ بہ و حررالحلبی و ابن الشحنۃ انہ بعد بذل جھدہ دائما حتما کالامی فلو یؤم الامثلہ ولا تصح صلوتہ اذاامکنہ الاقتداء بمن یحسنہ او ترك جھدہ او وجد قدرالفرض مما لالثغ فیہ ھذا ھو الصحیح المختار فی حکم الالثغ وکذا من لا یقدر علی التلفظ بحرف من الحروف

ترجمہ: غیر الثغ کی اقتداء الثغ کے پیچھے درست نہیں۔ حلبی اور ابن شحنہ نے لکھا ہے کہ ہمیشہ کی حتمی کوشش کے بعد  الثغ کا حکم اُمّی کی طرح ہے پس وُہ اپنے ہم مثل کا امام بن سکتا ہے (یعنی اپنے جیسے کے سوا دوسرے کی امامت نہ کرے) جب اچھی درست ادائیگی والے کی اقتداء ممکن ہو یا اس نے محنت ترک کردی یا فرض کی مقدار بغیر توتلے پن کے پڑھ سکتا ہے ان صورتوں میں اسکی نماز درست نہ ہوگی الثغ کے متعلق یہی مختار اور صحیح حکم ہے اور اسی طرح اس شخص کا بھی یہی حکم ہے جو حروفِ تہجی میں سے کوئی حرف نہ بول سکے یعنی صحیح تلفظ پر قادر نہ ہو۔

(الدرالمختار و ردالمحتار، کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في الالثغ، ج2، ص395)

علامہ شامی علیہ الرحمة ولا غیر الالثغ کے تحت الثغ کی تعریف ذکر کرتے ہیں کہ

قال في المغرب: هو الذي يتحول لسانه من السين إلى الثاء، وقيل: من الراء إلى الغين أو اللام أو الياء. زاد في القاموس أو من حرف إلى حرف

ترجمہ: مغرب میں فرمایا ہے کہ الثغ وہ ہے جس کی زبان سین سے ثاء کیطرف پھر جائے، اور کہا گیا ہے کہ راء سے غین یا لام یا یاء کیطرف پھرے اور قاموس میں یہ اضافہ کیا ہے کہ ایک حرف سے دوسرے حرف کی طرف پھرے۔

(الدرالمختار و ردالمحتار، کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في الالثغ، ج2، ص395)

اسی طرح من لایقدر علی التلفظ بحرف من الحروف کے تحت لکھتے ہیں:

و ذلك کالرھمٰن الرھیم والشیتان الرجیم والاٰلمین وایاك نابد و ایاك نستئین السرات،انأمت فکل ذلك حکمہ مامر من بذل الجھد دائما والا فلاتصح الصلٰوۃ بہ

ترجمہ: جو شخص حروف تہجی میں سے کسی حرف کے صحیح تلفّظ پر قادر نہ ہو مثلًا الرحمن الرحیم کی جگہ الرھمٰن الرھیم ،الشیطان کی جگہ الشیتان، العالمین کی جگہ الآلمین، ایاك نعبد کی جگہ ایاك نابد، نستعین کی جگہ نستئین، الصراط کی جگہ السرات، انعمت کی جگہ انأمت پڑھتا ہے، ان تمام صورتوں میں اگر کوئی ہمیشہ درست ادائیگی کی کوشش کے باوجود ایسا کرتا ہے تو نماز درست ہوگی ورنہ نماز درست نہ ہوگی۔

(الدرالمختار و ردالمحتار، کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في الالثغ، ج2، ص395)

اسی طرح سیدی اعلیحضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ سے ایسے امام کے بارے میں سوال کیا گیا جو سورہ فاتحہ شریف میں بجائے الحمد والرحمن والرحیم کے الھمد والرہمن والرہیم بہ ہائے ہوز پڑھتا ہے، ایسے شخص کو امام بنانا جائز ہے یا نہیں اور اس کے پیچھے نماز درست ہوگی یا نہیں  تو آپ فرماتے ہیں کہ: “اُسے امام بنانا ہرگز جائز نہیں اورنماز اس کے پیچھے نا درست ہے کہ اگر وہ شخص ح کے ادا پر بالفعل قادر ہے اور باوجود اس کے اپنی بے خیالی یا بے پروائی سے کلمات مذکورہ میں ھ پڑھتا ہے تو خود اس کی نماز فاسد و باطل، اوروں کی اسکے پیچھے کیا ہوسکے، اور اگر بالفعل ح پر قادر نہیں اور سیکھنے پر جان لڑا کر کوشش نہ کی تو بھی خود اس کی نماز محض اکارت، اور اس کے پیچھے ہر شخص کی باطل، اور اگر ایك ناکافی زمانہ تك کوشش کر چکا پھر چھوڑ دی جب بھی خود اس کی نماز پڑھی بے پڑھی سب ایک سی، اور اُس کے صدقے میں سب کی گئی اور برابر حد درجہ کی کوشش کئے جاتا ہے مگر کسی طرح ح نہیں لکلتی تو اُس کاحکم مثل اُمّی کے ہے کہ اگر کسی صحیح پڑھنے والے کے پیچھے نماز مل سکے اور اقتداء نہ کرے بلکہ تنہا پڑھے تو بھی اسکی نماز باطل ، پھر امام ہونا تو دوسرا درجہ ہے اور پر ظاہر ہے کہ اگر بالفرض عام جماعتوں میں کوئی درست خواں نہ ملے تو جمعہ میں تو قطعًا ہر طرح کے بندگان خدا موجود ہوتے ہیں پھر اس کا اُن کی اقتدا نہ کرنا اور آپ امام ہونا خود اس کی نماز کا مبطل ہوا ،اور جب اس کی گئی سب کی گئی۔ بہرحال ثابت ہوا کہ نہ اس شخص کی اپنی نماز ہوتی ہے نہ اسکے پیچھے کسی اور کی تو ایسے کو امام بنانا حرام ہے”.

(فتاوی رضویہ،جلد6،صفحہ255، رضافاؤنڈیشن،لاہور)

صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں:

جس سے حروف صحیح ادا نہیں  ہوتے اس پر واجب ہے کہ تصحیح حروف میں  رات دن پوری کوشش کرے اور اگر صحیح خواں  کی اقتدا کر سکتا ہو تو جہاں  تک ممکن ہو اس کی اقتدا کرے یا وہ آیتیں  پڑھے جس کے حروف صحیح ادا کر سکتا ہو اور یہ دونوں  صورتیں  نا ممکن ہوں  تو زمانۂ کوشش میں  اس کی اپنی نماز ہو جائے گی اور اپنے مثل دوسرے کی اِمامت بھی کر سکتا ہے یعنی اس کی کہ وہ بھی اسی حرف کو صحیح نہ پڑھتا ہو جس کو یہ اور اگر اس سے جو حرف ادا نہیں  ہوتا، دوسرا اس کو ادا کر لیتا ہے مگر کوئی دوسرا حرف اس سے ادا نہیں  ہوتا، تو ایک دوسرے کی اِمامت نہیں  کر سکتا اور اگر کوشش بھی نہیں  کرتا تو اس کی خود بھی نہیں  ہوتی دوسرے کی اس کے پیچھے کیا ہوگی۔ آج کل عام لوگ اس میں  مبتلا ہیں  کہ غلط پڑھتے ہیں  اور کوشش نہیں  کرتے ان کی نمازیں  خود باطل ہیں  اِمامت درکنار۔ ہکلا جس سے حرف مکرّر ادا ہوتے ہیں ، اس کا بھی یہی حکم ہے یعنی اگر صاف پڑھنے والے کے پیچھے پڑھ سکتا ہے توا س کے پیچھے پڑھنا لازم ہے ورنہ اس کی اپنی ہو جائے گی اور اپنے مثل یا اپنے سے کمتر کی اِمامت بھی کر سکتا ہے۔

(بہار شریعت ج1، ص 570، مکتبة المدینہ کراچی)

کتبہ

محمد عمیر علی حسینی مدنی غفر لہ

اپنا تبصرہ بھیجیں