تراویح میں ایسا بندہ لقمہ دے جو نماز میں نہیں

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ  اگر امام تراویح پڑھا رہا ہے اور کسی جگہ تلاوت میں وہ بھول جائے اور ایسا بندہ لقمہ دے جو نماز میں نہیں بلکہ باہر بیٹھا سن رہا تھا اور امام نے اس کا لقمہ لیا  تو شرعی حکم کیا ہے؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوہاب اللہم ہدایۃ الحق الصواب

پوچھی گئی صورت میں اگر امام میں  ایسے شخص کا لقمہ لیا جو نماز میں نہیں ہے تو امام کی نماز ٹوٹ جائے گی،اس کے ساتھ ساتھ مقتدیوں کی نماز بھی ٹوٹ جائے گی  کیونکہ اس صورت میں خارجِ نماز سے تعلیم و  تلقین پائی جا رہی ہے جوکہ مفسدِ نماز ہے۔البتہ  جب لقمہ دینے والے نے لقمہ دیا  ساتھ ہی امام کو بھی خود یا د  آ گیا کہ وہ نہ بھی بتاتا تو  بھی امام صاحب کو یاد  آ جاتا  تو یہ نماز نہیں توڑے گا۔

رد المحتار میں ہے

”(ان حصل التذكر بسبب الفتح نفسد مطلقا ای سواء شرع في التلاوة قبل تمام الفتح أو بعده لوجود التعلم وان حصل تذكره من نفسه لا بسبب الفتح لا تفسد مطلقا وكون الظاهر اً انه حصل بالفتح لا يؤثر بعد تحقق  انہ من نفسه)“

ترجمہ:ایسی صورت میں اگر امام کو لقمے کی وجہ سے یاد آیا تو مطلقاً نماز فاسد ہو جائے گی خواہ امام نے لقمہ ختم ہونے سے پہلے تلاوت شروع کر دی ہو یا لقمہ ختم ہونے کے بعد شروع کی ہو، تعلم کے پائے جانے کی وجہ سے اور اگر اسے خود ہی یاد آ گیا ہو نہ کہ لقمے کی وجہ سے یعنی اگر لقمہ  نہ آتا تب بھی اسے یاد آ جاتا تو ایسی صورت میں مطلقاً نماز نہ ٹوٹے گی۔ یہ بات ظاہر ہے کہ جب یہ ثابت ہو جائے کہ لقمہ از خود آیا ہے تو لقمہ  کا آنا نماز پر اثر نہیں ڈالے گا۔(ردالمحتار،جلد2،صفحہ382،مکتبہ امدادیہ،ملتان)

مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

”اپنے مقتدی کے سوا دوسرے  کا لقمہ لینا بھی مفسدِ نماز ہے  البتہ اگر اس کے بتاتے وقت اسے خود یاد آ گیا  کہ اس کے بتانے سے نہیں،یعنی اگر وہ نہ بھی بتاتا جب بھی اسے یاد آ جاتا اس کے بتانے کو کوئی دخل نہیں تو اس کا پڑھنا مفسد نہیں ہے۔“(بہارِ شریعت، جلد 1،حصہ سوم،صفحہ 607،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ

قاسم بلال عطاری مدنی

20رمضان المبارک10 اپریل 2023

اپنا تبصرہ بھیجیں