جو شخص بیمار ہو تو کیا وہ اپنے حصے کے روزے کسی اور سے رکھوا سکتا ہے یا فدیہ دے سکتا ہے؟

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ جو شخص بیمار ہو تو کیا وہ اپنے حصے کے روزے کسی اور سے رکھوا سکتا ہے یا فدیہ دے سکتا ہے؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جو شخص بیمار ہو تو اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے حصے کے روزے کسی اور سے رکھوائے کیونکہ روزہ بدنی عبادت ہے اس میں نیابت جائز نہیں اور نہ ہی وہ شخص فدیہ دے سکتا ہے کیونکہ فدیہ دینے کی اجازت صرف شیخ فانی کو ہے مریض کیلئے نہیں۔ ہاں مرض اتنا شدید ہے کہ روزہ رکھنا اس کیلئے مرض کے بڑھنے یا دیر سے ٹھیک ہونے کا باعث ہے، تو تا حصولِ صحت اسے روزہ قضا کرنے کی اجازت ہے، جتنے روزے چھوڑے ہیں صحت یابی کے بعد ان کی قضا کرنی ہوگی۔

چنانچہ بحر الرائق میں ہے کہ

الولی لایصوم عنہ و لا یصلی لحدیث النسائی “لایصوم احد عن احد ولا یصلی احد عن احد”.

ترجمہ:- ولی میت کی طرف سے نہ روزہ رکھے نہ نماز پڑھے کیونکہ حدیث نسائی میں ہے کوئی شخص کسی کی طرف سے نہ روزہ رکھے اور نہ نماز پڑھے۔

(البحرالرائق ،فصل فی العوارض، ج 2، ص 285، ایچ ایم سعید کمپنی کراچی)

چنانچہ سیدی اعلیٰ حضرت مجدّدِ دین وملت فتاوی رضویہ شریف میں فرماتے ہیں:”جو ایسا مریض ہے کہ روزہ نہیں رکھ سکتا روزہ سے اُسے ضرر ہوگا، مرض بڑھے گا یا دن کھینچیں گے، اور یہ بات تجربہ سے ثابت ہو یا مسلم طبیب حاذق کے بیان سے جو فاسق نہ ہوتو جتنے دنوں یہ حالت رہے اگر چہ پُورا مہینہ وہ روزہ ناغہ کرسکتا ہے اور بعد صحت اس کی قضا رکھے، جتنے روزے چُھوٹے ہوں ایک سے تیس تک۔ اپنے بدلے دوسرے کو روزہ رکھوانا محض باطل وبے معنی ہے، بدنی عبادت ایك کے کئے دوسرے پر سے نہیں اُتر سکتی، نہ مرد کے بدلے مرد کے رکھے سے نہ عورت کے”۔

فتاویٰ رضویہ ج 10، ص 522، رضا فائونڈیشن لاھور)

ایک اور مقام پر فرماتے ہیں کہ: ’’بعض جاہلوں نے یہ خیال کر لیا ہے کہ روزہ کا فدیہ ہر شخص کیلئے جائز ہے جبکہ روزے میں اسے کچھ تکلیف ہو ،ایسا ہر گز نہیں ،فدیہ صرف شیخِ فانی کیلئے رکھا ہے جو بہ سبب پیرانہ سالی حقیقۃً روزہ کی قدرت نہ رکھتا ہو ،نہ آئندہ طاقت کی امید کہ عمر جتنی بڑھے گی ضعف بڑھے گا اُس کیلئے فدیہ کا حکم ہے اور جو شخص روزہ خود رکھ سکتا ہو اور ایسا مریض نہیں جس کے مرض کو روزہ مضر ہو، اس پر خود روزہ رکھنا فرض ہے اگرچہ تکلیف ہو، بھوک پیاس گرمی خشکی کی تکلیف تو گویا لازمِ روزہ ہے اور اسی حکمت کیلئے روزہ کا حکم فرمایا گیا ہے، اس کے ڈر سے اگر روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہو تو مَعَاذَ اللہ عَزَّ وَجَل روزے کا حکم ہی بیکار و معطل ہو جائے ۔“

(فتاویٰ رضویہ، جلد 10، صفحہ 521، رضا فاؤنڈیشن، لاھور )

مزید فرماتے ہیں کہ:”جس جوان یا بوڑھے کو کسی بیماری کے سبب ایسا ضعف ہو کہ روزہ نہیں رکھ سکتے انہیں بھی کفارہ دینے کی اجازت نہیں بلکہ بیماری جانے کا انتظار کریں، اگر قبلِ شفا موت آجائے تو اس وقت کفارہ کی وصیت کر دیں، غرض یہ ہے کہ کفارہ اس وقت ہے کہ روزہ نہ گرمی میں رکھ سکیں نہ جاڑے میں،نہ لگاتار نہ متفرق اور جس عذر کے سبب طاقت نہ ہو اس عذر کے جانے کی امید نہ ہو، جیسے وہ بوڑھا کہ بڑھاپے نے اُسے ایسا ضعیف کردیا کہ روزے متفرق کر کے جاڑے میں بھی نہیں رکھ سکتا تو بڑھاپا تو جانے کی چیز نہیں ایسے شخص کو کفارہ کا حکم ہے ‘‘

(فتاویٰ رضویہ، جلد 10، صفحہ 547، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

کتبہ محمد عمیر علی حسینی مدنی غفر لہ

اپنا تبصرہ بھیجیں