اعتکاف کے دوران اگر روزہ ٹوٹ جائے تو کیا اعتکاف بھی ٹوٹ جاتا ہے؟

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ اعتکاف کے دوران اگر روزہ ٹوٹ جائے تو کیا اعتکاف بھی ٹوٹ جاتا ہے؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

سنت اعتکاف کیلئے روزہ شرط ہے، اِس لئے روزہ ٹوٹ جانے سے اعتکاف بھی ٹوٹ جاتا ہے۔ کیونکہ قاعدہ یہ ہے کہ “اذا فات الشرط فات المشروط” (جب شرط نہ پائی جائے تو مشروط بھی نہیں پایا جائے گا) خواہ یہ روزہ کسی عذر سے توڑا ہو یا بلاعذر، جان بوجھ کر توڑا ہو یا غلطی سے ٹوٹا ہو، ہرصورت میں  اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔ اور جس دن اعتکاف توڑا فقط اس ایک دن کی قضا کرنی ہوگی۔

چنانچہ سنن ابی داؤد شریف میں ہے: “عن عائشة انها قالت:” السنة على المعتكف ان لا يعود مريضا ولا يشهد جنازة ولا يمس امراة ولا يباشرها ولا يخرج لحاجة إلا لما لا بد منه، ولا اعتكاف إلا بصوم، ولا اعتكاف إلا في مسجد جامع”.

ترجمہ:- ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ معتکف پر سنت یہ ہے کہ نہ کسی مریض کی عیادت کو جائے، نہ جنازے میں شریک ہو، نہ عورت کو چھوئے، اور نہ ہی اس سے مباشرت کرے، اور نہ کسی حاجت کیلئے جائے سوائے ایسی حاجت کے جو ضروری ہو، اور بغیر روزے کے اعتکاف نہیں، اور جماعت والی مسجد کے سوا کہیں اور اعتکاف نہیں۔

(سنن ابی داؤد، کتاب الصیام، باب المعتکف یعود المریض، الحدیث: 2473، ج2، ص492)

اسی طرح علامہ شامی علیہ الرحمة شرط الصوم لصحة الاول کے تحت لکھتے ہیں کہ: “ومقتضى ذلك أن الصوم شرط أيضا في الاعتكاف المسنون لأنه مقدر بالعشر الأخير حتى لو اعتكفه بلا صوم لمرض أو سفر، ينبغي أن لا يصح عنه بل يكون نفلا فلا تحصل به إقامة سنة الكفاية”

ترجمہ:- اس عبارت کا مقتضی یہ ہے کہ روزہ سنت اعتکاف میں بھی شرط ہے کیونکہ سنت اعتکاف میں آخری عشرے کی مقدار معین کی جاتی ہے حتیٰ کہ اگر کسی شخص نے سفر یا مرض کی وجہ سے سنت اعتکاف کیا تو مناسب یہی ہے کہ سنت اعتکاف درست نہ ہو بلکہ نفل اعتکاف ہوگا پس اس سے سنت کفایہ کا قائم کرنا حاصل نہیں ہوگا۔

(رد المحتار علی الدرالمختار ج3، ص496 مطبوعہ لاھور)

شیخ طریقت امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ فیضان رمضان میں فرماتے ہیں کہ: چونکہ اس میں روزہ شرط ہے، اِس لئے روزہ توڑ دینے سے بھی اعتکاف ٹوٹ جا تاہے۔ خواہ یہ روزہ کسی عذر سے توڑا ہو یا بلاعذر، جان بوجھ کر توڑا ہو یا غلطی سے ٹوٹا ہو، ہر صورت میں اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔ اگر بھول کر کچھ کھا پی لیا تو نہ روزہ ٹوٹا نہ اِعتکاف۔

(فیضان رمضان ص 106، مکتبة المدینہ کراچی)

صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرّحمۃ بہارِ شریعت میں اعتکاف کی قضا کے بارے میں فرماتے ہیں:”اعتکافِ نفل اگر چھوڑ دے تو اس کی قضا نہیں کہ وہیں ختم ہوگیا اور اعتکافِ مسنون کہ رمضان کی پچھلی دس تاریخوں تک کیلیے بیٹھا تھا اسے توڑا تو جس دن توڑا فقط اس ایک دن کی قضا کرے پورے دس دن کی قضا واجب نہیں.

 (بہار شریعت،ج1، ص1028، مکتبة المدینہ کراچی)

کتبہ محمد عمیر علی حسینی مدنی غفر لہ

اپنا تبصرہ بھیجیں