قبرستان میں جگہ نہ ہو تو پرانی قبروں میں مردے دفن کرسکتے ہیں؟

کیافرماتے ہیں علمائے دین وشرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ قبرستان میں جگہ نہ ہو تو پرانی قبروں میں مردے دفن کرسکتے ہیں؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

 پرانی قبر کو کھود کر کسی دوسرے  کو اس میں دفن کرنا بلاضرورت, شدید ناجائز وحرام ہے کہ مرنے کے بعد بھی مسلمان کی حرمت باقی رہتی ہے اگرچہ قبر پرانی ہی کیوں نہ ہوجائے ،کیونکہ قبر کھودنے میں مسلمان میت کی توہین ،اس کو ایذاء پہنچاناہے حالانکہ احادیث مبارکہ میں تو مسلمان کی قبر پر پاؤں رکھنے ان پر بیٹھنے  کو منع کیا کہ اس میں میت کو ایذا پہنچانا ہے۔

“صحیح مسلم”میں ہے

عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لأن يجلس أحدكم على جمرة فتحرق ثيابه، فتخلص إلى جلده، خير له من أن يجلس على قبر»

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی ایک انگارے پر بیٹھے وہ انگارہ اس کے کپڑوں کو پھاڑ دے اور اس کی جلد تک پہنچ جائے یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ قبر پر بیٹھے)

(صحیح مسلم باب النهي عن الجلوس على القبر والصلاة عليه ج2 ص 667   دار احیاء التراث عربی.بیروت)

اور قبر کھودنا اس سے کہیں زیادہ شدید اور سخت ہے لہذا اگر دوسرا قبرستان موجود ہے اور اس میں جگہ بھی موجود ہےاگرچہ دور ہو وہیں دفن کیا جاۓ گی

شہر میں ایک قبرستان کا بھرجانا یا اپنے عزیزوں کے پاس دفن کرنے کی جگہ نہ ہونا وہ عذ ر نہیں کہ جس کی وجہ سے ایک قبر میں دوسرے کو دفن کرنے کی اجازت ہے۔ردالمحتار میں ہے”ولیس من الضرورۃ المبیحۃ لجمع میتین فأکثر ابتداء فی قبر واحد قصد دفن الرجل مع قریبہ أو ضیق المحل فی تلک المقبرۃ مع وجود غیرہا”

یعنی

(ردالمحتار،باب صلوٰۃ الجنازۃ،مطلب فی دفن ا لمیت،جلد2،صفحہ233 دارالفكر بيروت)

مطلقا قبر کھود کر اس میں دوسری میت کو دفنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی

ہاں اگر واقعی ایسی مجبوری ہے کہ کوئی دوسرا قبرستان بھی میسر نہیں ہے اور اِس قبرستان میں بھی بالکل جگہ موجود نہیں ہے تو اب پرانی قبر میں مردے کو دفن کرسکتے ہیں فقہ کا مشہور قاعدہ ہے”الضرورات تبیح المحظورات ” یعنی ضروت ممنوعات کو جائز کر دیتی ہے

اور اگر اس قبر سے ہڈیاں نکلتی ہیں تو ان کو ایک طرف دفن کر کےدوسری میت کو دفن کریں

علامہ محمد امین ابن عابدین علیہ الرحمۃ “حاشییہ ابن عابدین المعروف ب فتاوی شامی”میں لکھتے ہیں

لا يدفن اثنان في قبر إلا لضرورة،ولا يحفر قبر لدفن آخر إلا إن بلي الأول فلم يبق له عظم إلا أن لا يوجد فتضم عظام الأول ويجعل بينهما حاجز من تراب.

یعنی دو میتوں کو ایک قبر میں دفن نہیں کریں گےمگر ضرورتاً اور نہ دوسری میت کی تدفین کے لئے قبر کو کھودا جائے گا مگر یہ کہ میت اول خاک ہوچکی ہواور اسکی ہڈیاں بھی باقی نہ ہوں اور اگر پہلی میت کی ہڈیاں موجود ہوں تو ان دونوں کے درمیان مٹی سے آڑ کردی جائے.

(حاشیہ ابن عابدین ج2 ص233 دارالفکر بیروت)

اور”وقار الفتاوی” میں ہے

قبر کو کھود کر دوسری میت اس میں دفن کرنا٬اس وقت تک جائز نہیں ہے جب تک پہلی میت کی ہڈیاں  مٹی میں مل کرختم نہ ہو جائیں. جان بوجھ کر کسی مسلمان کی قبر کھولنا جائز نہیں ہے اگر کھودنے کے بعد پتا چلا  کہ یہاں قبر تھی اوراس کی ہڈیاں وغیرہ نکلیں اور وہاں دوسری جگہ قبر کےلئے خالی نہیں ہے تو ان ہڈیوں کو اسی قبر میں ایک طرف دفن کرکے دوسری میت کو دفن کردیں.

لیکن جب دوسرا قبرستان موجود ہے اور اُس میں جگہ بھی ہو اگرچہ دور ہو تو وہیں دفن کیا جائے گا

(وقار الفتاوی کتاب الجنائز ج2 ص 375مطبوعہ بزم وقارالدین )

واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

مجیب: عبدہ المذنب ابو معاویہ زاہد بشیر مدنی

اپنا تبصرہ بھیجیں