ایک قبر میں بلا ضرورت ایک سے زائد مردوں کو دفن کرنا

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و شرع متین مسئلہ ھذا کے بارے میں کہ اگر کسی نے وصیت کی ہو کہ مجھے میرے دادا کی قبر ہی میں دفن کرنا تو اس وصیت پر عمل کرنا کیسا ۔؟؟ جبکہ اس قبرستان میں اور جگہ دفن کرنے کی بھی نہ ہو۔بینوا توجروا

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

 کسی بھی شخص کی  قبر میں دفن ہونے کی وصیت کرنا جائز نہیں خواہ وہ قبر دادا ہی کی کیوں نہ ہو کیونکہ ایک قبر میں بلا ضرورت ایک سے زائد مردوں کو دفن کرنا جائز نہیں ہے البتہ ضرورت کے تحت جائز ہے ۔ پوچھی گئی صورت میں ایسی شرعی ضرورت متحقق نہیں جس کی وجہ سے دادا کی قبر میں تدفین جائز ہو سکے لہذا اس قبرستان میں جگہ کی قلت کی وجہ سے موصی (یعنی وصیت کرنے والے) کو کسی دوسرے قبرستان میں دفن کیا جائے ۔

حضرت آدم سے لے کر آج تک متوارث طریقہ یہی چلا آ رہا ہے کہ ایک قبر میں ایک ہی میت کو دفن کی جائے ۔ لہذا ایک قبر میں ایک سے زائد مردوں کی تدفین متوارث طریقہ کے خلاف ہے ۔

 چنانچہ بدائع الصنائع میں ہے :

ولا يدفن الرجلان أو أكثر في قبر واحد هكذا جرت السنة من لدن آدم إلى يومنا هذا، فإن احتاجوا إلى ذلك قدموا أفضلهما وجعلوا بينهما حاجزا من الصعيد لما روي عن النبي – صلى الله عليه وسلم – «أنه أمر بدفن قتلى أحد وكان يدفن في القبر رجلان، أو ثلاثة، وقال: قدموا أكثرهم قرآنا»

ترجمہ: دو مردوں یا اس سے زیادہ کو ایک قبر میں دفن نہیں کیا جائے گا اسی طرح حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے طریقہ چلتا آ رہا ہے اگر ضرورت ہو تو دفن کر سکتے ہیں ان میں سے افضل کو مقدم کیا جائیگا اور ان کے درمیان مٹی سے آڑ بنا دی جائے کہ نبی پاک علیہ السلام سے اسی طرح مروی ہے

کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے دو دو شہیدوں کو دفن کرنے میں ایک ساتھ جمع فرمایا تھا اور فرمایا کہ اسے مقدم کرو جو قران کو زیادہ جاننے والا ہے

بدائع الصنائع ج١ ص ٣١٩ دارالکتب العلمیہ

اور بہار شریعت میں عالمگیری کے حوالے سے ہے

ایک قبر میں ایک سے زیادہ بلا ضرورت دفن کرنا جائز نہیں ۔

(الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب الحادی والعشرون في الجنائز، الفصل السادس، ج۱، ص١۴۴)

اور “حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح” میں ہے :

ولا (ای لیس من الضرورة) ضیق محل الدفن فی تلک المقبرہ مع وجود غیرھا ۔

قبرستان میں جگہ کی تنگی کا ہونا ایک ہی قبر میں دو یا زیادہ مردے دفن کرنے کی شرعی ضرورت میں سے نہیں در حالینکہ کسی دوسرے قبرستان میں جگہ موجود ہو۔

(حاشیہ طحطاوی” کتاب الصلاة” ص ۵١٢، مطبوعہ قدیمی کتب خانہ)

واللہ اعلم و رسولہ اعلم عزوجل صلی اللہ علیہ والہ وسلم

مجیب : مولانا محمد فرمان رضا مدنی

اپنا تبصرہ بھیجیں