ایک مرتبہ جب جنازہ پڑھ لیا گیا تو دوبارہ نماز جنازہ پڑھنا جائز نہیں

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک مرتبہ جب جنازہ پڑھ لیا گیا تو دوسری جگہ دوبارہ جنازہ پڑھنا کیسا ہے؟

الجواب بعون الملک الوھاب اللہم ھدایة الحق و الصواب

ایک مرتبہ جب جنازہ پڑھ لیا گیا تو دوبارہ نماز جنازہ پڑھنا جائز نہیں۔ البتہ ولی کے سوا کسی ایسے نے نماز پڑھائی جو ولی پر مقدم نہ ہو اور ولی نے اُسے اجازت بھی نہ دی تھی تو ا گر ولی نماز میں  شریک نہ ہوا تو نماز کا اعادہ کر سکتا ہے اور اگر وہ ولی پر مقدم ہے جیسے بادشاہ و قاضی و امام محلہ کہ ولی سے افضل ہو تو اب ولی نماز کا اعادہ نہیں کر سکتا۔

  ھدایہ شریف میں ہے”ان صلی غیرالولی والسلطان اعادالولی ان شاء لان الحق للاولیاء وان صلی الولی لم یجز لاحدٍ ان یصلی بعدہ لان الفرض یتادی بالاول والتنفل بہا غیر مشروع ولہذا رأینا الناس ترکوامن اٰخرھم الصلٰوۃ علی قبرالنبی صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم وھوالیوم کماوضع”.ترجمہ:- اگر ولی وحاکم اسلام کے سوا اور لوگ نمازِ جنازہ پڑھ لیں تو ولی کو اعادہ کا اختیار کہ حق اولیاء کاہے اور اگر ولی پڑھ چکا تو اب کسی کو جائز نہیں کہ فرض تو پہلی نماز سے اداہوچکا اور یہ نماز بطورنفل پڑھنی مشروع نہیں ولہذا ہم دیکھتے ہیں کہ تمام جہان کے مسلمانوں نےنبی صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے مزار اقدس پر نماز چھوڑدی حالانکہ حضور آج بھی ویسے ہی ہیں جیسے جس دن قبر مبارك میں رکھے گئے تھے۔

(ھدایہ ج 1 ص 192 مطبوعہ لاہور)

  درمختار میں ہے(فإن صلى غيره) أي الولي (ممن ليس له حق التقدم) على الولي (ولم يتابعه) الولي (أعاد الولي) ولو على قبره إن شاء لاجل حقه لا لاسقاط الفرض، ولذا قلنا: ليس لمن صلى عليها

أن يعيد مع الولي لان تكرارها غير مشروع (وإلا) أي وإن صلى من له حق التقدم كقاض أو نائبه أو إمام الحي أو من ليس له حق التقدم وتابعه الولي (لا) يعيد ترجمہ:- اگر ولی کے علاؤہ کسی ایسے شخص نے نماز جنازہ پڑھائی جس کو ولی پر مقدم ہونے کا حق حاصل نہ تھا اور ولی نے اس کی پیروی بھی نہ کی ہو تو اگر ولی چاہے تو اپنے حق کی وجہ سے نماز جنارہ کا اعادہ کرے گا اگرچہ قبر پر ہی ہو ناکہ فرض کے ساقط ہونے کی وجہ سے۔ اسی وجہ سے ہم کہتے ہیں جس شخص نے جنازہ نماز پڑھ وہ ولی کے ساتھ دوبارہ نہ پڑھے کیوں کہ نماز جنازہ کا تکرار جائز نہیں اور اگر ایسے شخص نے نماز جنازہ پڑھائی جس کو حق تقدم حاصل تھا جیسے قاضی یا اس کا نائب یا محلے کا امام یا وہ شخص جس کو حق تقدم تو حاصل نہیں اس نے نماز جنازہ پڑھائی اور ولی نے اس کی پیروی کی تو ولی جنازہ نماز کا اعادہ نہیں کرے گا۔

(درمختار کتاب الصلاۃ، باب صلاة الجنازة ج 3 ص 144)

سیدی اعلیحضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمة فتاویٰ رضویہ شریف میں فرماتے ہیں کہ “مذہب مہذب حنفی میں جبکہ ولی نماز پڑھ چکا یا اس کے اذن سے ایک بار نماز ہوچکی (اگرچہ یونہی کہ دوسرے نے شروع کی اور ولی شریک ہوگیا) اب دوسروں کو مطلقاً جائز نہیں، نہ ان کو جو پڑھ چکے نا ان کو جو باقی رہے۔ ائمہ حنفیہ کا اس پر اجماع ہے، جو اس کے خلاف کرے گا مذہب حنفی کا مخالف ہے۔ تمام کتب مذہب متون و شروح و فتاویٰ اس کی تصریحات سے گونج رہی ہیں۔اس مسئلہ کی پوری تحقیق و تنقیح فقیر کے رسالے “النھی الحاجز عن تکرار صلاة الجنائز” میں بفضلہ بدرجہ اتم ہو چکی ہے”۔

(فتاویٰ رضویہ، ج 9، ص 318، رضا فاؤنڈیشن لاھور)

بہار شریعت میں ہے”ولی کے سوا کسی ایسے نے نماز پڑھائی جو ولی پر مقدم نہ ہو اور ولی نے اُسے اجازت بھی نہ دی تھی تو ا گر ولی نماز میں  شریک نہ ہوا تو نماز کا اعادہ کر سکتا ہے اور اگر مردہ دفن ہوگیا ہے تو قبر پر نماز پڑھ سکتا ہے اور اگر وہ ولی پر مقدم ہے جیسے بادشاہ و قاضی و امام محلہ کہ ولی سے افضل ہو تو اب ولی نماز کا اعادہ نہیں  کر سکتا اور اگرایک ولی نے نماز پڑھا دی تو دوسرے اولیا اعادہ نہیں  کر سکتے اور ہر صورت اعادہ میں  جو شخص پہلی نماز میں  شریک نہ تھا وہ ولی کے ساتھ پڑھ سکتا ہے اور جو شخص شریک تھا وہ ولی کے ساتھ نہیں  پڑھ سکتا ہے کہ جنازہ کی دو مرتبہ نماز ناجائز ہے سوا اس صورت کے کہ غیر ولی نے بغیر اذن ولی پڑھائی۔  (بہار شریعت، حصہ 4، ص 838 مکتبة المدینہ)

واللہ اعلم عزوجل و رسولہ اعلم صلی اللّٰہ علیہ وسلم

کتبہ

محمد عمیر علی حسینی مدنی غفر لہ

اپنا تبصرہ بھیجیں