نفل روزہ رکھا بعد میں توڑ دیا تو کیا حکم ہے ؟

سوال:نفل روزہ رکھا بعد میں توڑ دیا تو کیا حکم ہے ؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

نفل روزہ رکھنے سے اسکو پورا کرنا واجب ہوجاتا ہے اور بلاوجہ شرعی توڑنا گناہ ہے،لہذاقصداتوڑنے یاخطاءََ ٹوٹنے کی صورت میں اسکی قضا ء واجب ہو گی۔
قران پاک میں ہے:”لَا تُبْطِلُوْۤا اَعْمَالَكُمْ “اے ایمان والوں اپنے اعمال باطل نہ کرو” (القران،47/33)

اسکے تحت صراط الجنان میں ہے: لہٰذا آدمی جو عمل شروع کرے خواہ وہ نفلی نماز یا روزہ یا کوئی اور ہی عمل ہو ،اس پر لازم ہے کہ اس کو باطل نہ کرے بلکہ اسے پورا کرے۔
(صراط الجنان،9/325-326،مکتبۃ المدینہ کراچی)

مبسوط میں ہے: قلت أَرَأَيْت رجلا أصبح صَائِما تَطَوّعا ثمَّ بدا لَهُ فَأفْطر قَالَ عَلَيْهِ يَوْم مَكَان يَوْمه ذَلِك”آپکی اس شخص کے بارے میں کیا رائے ہے جس نے نفلی روزہ رکھا پھر اسے سفر پر جانا پڑ گیا تو اس نے روزہ کھول لیا،فرمایا اس پر اس دن کے بدلے کسی اور دن روزہ رکھنا واجب ہے” ۔ (مبسوط شیبانی،203/2)

بدائع صنائع میں ہے: “اِذا شرع فی التطوع یلزمہ المضی فیہ واذا افسدہ یلزمہ القضاء ۔۔۔ان المؤدی عبادۃ، وابطال العبادۃ حرام،لقولہ تعالٰی ولا تبطلوا اعمالکم فیجب صیانتھا عن الابطال،وذلک بلزوم المضی فیھا، واذا افسدھا فقد افسد عبادۃ واجبۃ الاداء ،فیلزمہ القضاء جبرا للغائت”جب کوئی نفلی عبادت شروع کردے تو اسکو پورا کرنا واجب ہے اگر فاسد کرے گا تو اس پر قضاء لازم ہے۔۔۔۔ادا کی جانے والی عبادت ہے اور اسکو اور اسکو باطل کرنا حرام ہے اللہ کے اس فرمان کیوجہ سے کہ اعمال کو باطل نہ کرو تو انکو باطل کرنے سے بچانا واجب ہے اور یہ انکو پورا کرنے سے ہو گا تو جب کوئی انھیں توڑ دے تو اس نے ایک ایسی عبادت کو توڑا جو اس پر واجب تھی تو اس پراسکی غایت کا نقصان پورا کرنے کیلئے قضاء لازم ہے” (بدائع صنائع،2/279)

قدوری کی شرح جوھرہ نیرہ میں ہے: (قَوْلُهُ وَمَنْ دَخَلَ فِي صَوْمِ التَّطَوُّعِ أَوْ فِي صَلَاةِ التَّطَوُّعِ ثُمَّ أَفْسَدَهُمَا قَضَاهُمَا) سَوَاءٌ حَصَلَ الْإِفْسَادُ بِصُنْعِهِ أَوْ بِغَيْرِ صُنْعِهِ” (اور جس نے نفلی نماز یا روزہ رکھا پھر ان کو فاسد کیا تو انکی قضاء کرے گا)برابر ہے کہ یہ توڑنا اسکے اپنے فعل سے ہو یا بغیر فعل کے۔” (جوھرہ نیرہ ،1/143)

تنویر الابصار مع در مختار میں ہے:(ولزم نفل شرع فیہ قصداادء وقضاء)ای یجب اتمامہ فان فسد ولو بعروض حیض فی الاصح وجب القضاء ” (اور نفلی روزہ بطور قضاء یا ادا شروع کیا تو لازم ہوجاتا ہے) یعنی اسکا پورا کرنا واجب ہوتا ہے،تو اگر روزہ ٹوٹ گیا اگرچہ عارضے کیوجہ سے جیسے عورت کو حیض آگیا تو قضا واجب ہو جائے گی۔ (فتاوٰی شامی ،3/412-413،دارالکتب العالم ریاض)

اسکے تحت شامی میں ہے: لا فرق فی وجوب القضاء بین ما اذا افسدہ قصدا،ولا خلاف فیہ اوبلا قصد فی اصح الروایتین ۔ “اگر کسی نے روزہ قصدافاسد کیا توقضا ء کے واجب ہونے میں کوئی فرق نہیں ہے اور نہ ہی کوئی اختلاف ہے۔ اسی طرح کا حکم اصح روایت میں بلاقصدفاسدہونےمیں بھی ہے۔ (فتاوٰی شامی ،3/413،دارالکتب العالم ریاض)

بہار شریعت میں ہے:ادائے رمضان کے علاوہ اور کوئی روزہ فاسد کردیا۔۔۔ان سب صورتو ں میں صرف قضاء لازم ہے۔ملخصا (بہارِ شریعت،1/989،مکتبۃ المدینہ)

واللہ اعلم بالصواب

اپنا تبصرہ بھیجیں