پانی کے ٹینک میں بلی، چوہے، چھپکلی، کوے، لال بیگ، چھچوندر کے گرنے یا مرنے کی صورت میں پانی کا کیا حکم ہوگا

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ پانی کے ٹینک میں بلی، چوہے، چھپکلی، کوے، لال بیگ، چھچوندر کے گرنے یا مرنے کی صورت میں پانی کا کیا حکم ہوگا جواب عنایت فرمادیجیے؟

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت کا حکم یہ ہے کہ جس پانی میں جانور گرا یا مرا ہے اولاً اس پانی کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں پہلی صورت یہ کہ وہ پانی جاری ہوگا یا جاری کے حکم میں ہوگا جیسے کہ وہ ٹینک یا حوض یا تالاب جو دہ دردہ ہو دوسری صورت یہ کہ وہ پانی نہ جاری ہوگا نہ اس کے حکم میں جیسے وہ ٹینک یا حوض یا تالاب جو دہ دردہ نہ ہو۔
پھر اس دوسری صورت کی مزید دو صورتیں
بنیں گی پہلی صورت یہ کہ اس پانی میں گرنے یا مرنے والا جانور دموی (یعنی اس میں بہنے والا خون) ہے دوسری صورت یہ کہ وہ غیر دموی (یعنی اس میں بہنے والا خون نہیں) ہے اگر تو وہ غیر دموی ہے جیسے لال بیگ، بچھو، مکھی اور بھڑ، چیونٹیاں وغیرہ تو ان کے پانی میں مرنے یا گر کر پانی سے زندہ باہر آجانے کی صورت میں پانی پاک ہی رہے گا۔
پہلی صورت یعنی پانی میں گرنے یا مرنے والا جانور دموی ہے جیسے بلی، چوہا، چھپکلی، کوا، چھچھوندر وغیرہ تو ان کے مرنے سے پانی ناپاک ہوجائے گا چاہے یہ پانی کے اندر مریں یا پھر مرے تو باہر ہیں لیکن پھر مردہ حالت میں پانی میں گر گئے تو ان دونوں صورتوں میں پانی ناپاک ہوجائے گا۔
اور اگر پانی میں گرنے کے بعد زندہ نکل آئے تو اس صورت میں پانی پاک رہے گا۔
پہلی صورت کہ وہ پانی جاری ہوگا یا جاری کے حکم میں ہوگا جیسے وہ ٹینک یا حوض یا تالاب جو دہ دردہ ہو تو اس صورت کا حکم یہ ہے کہ اس میں کسی جانور کے مرنے سے جب تک پانی کا رنگ یا بو یا ذائقہ تبدیل نہیں ہوجاتا تب تک یہ ٹینک یا حوض یا تالاب اور اس میں موجود پانی پاک رہے گا۔
نوٹ بئر صغیر اور حوض صغیر کا ناپاک ہونے کے حوالے سے ایک ہی حکم ہے جیسے کہ اگر بئر صغیر میں اگر کوئی زندہ دموی جانور گرجائے اور پھر زندہ حالت میں باہر نکل آئے تو پانی ناپاک نہیں ہوتا بلکہ پاک ہی رہتا ہےجبکہ اس کے جسم پر نجاست نہ لگی ہو تو بالکل اسی طرح اگر بئر صغیر میں کوئی دموی جانور زندہ حالت میں گرکر پھر زندہ باہر نکل آیا تو پانی ناپاک نہیں ہوگا؛ اس لیے کہ بئر صغیر وہ کہلاتا ہے کہ جو دس بائے دس یعنی دہ دردہ سے کم پانی والا ہو اور حوض صغیر بھی دہ دردہ سے کم ہوتا ہے اس لیے ناپاک ہونے کے حوالے سے دونوں کا حکم ایک ہی ہوگا۔

بدائع الصنائع میں ہے: ثم الحيوان إذا مات في المائع القليل فلا يخلو إما إن كان له دم سائل أو لم يكن، ولا يخلو إما أن يكون بريا أو مائيا، ولا يخلو إما إن مات في الماء أو في غير الماء، فإن لم يكن له دم سائل، كالذباب والزنبور والعقرب والسمك والجراد ونحوها لا ينجس بالموت، ولا ينجس ما يموت فيه من المائع، سواء كان ماء أو غيره من المائعات، كالخل واللبن والعصير وأشباه ذلك، وسواء كان بريا أو مائيا كالعقرب المائي ونحوه، وسواء كان السمك طافيا أو غير طاف.
ما ذكرنا أن نجاسة الميتة ليست لعين الموت، فإن الموت موجود في السمك والجراد ولا يوجب التنجيس، ولكن لما فيها من الدم المسفوح، ولا دم في هذه الأشياء، وإن كان له دم سائل فإن كان بريا ينجس بالموت وينجس المائع الذي يموت فيه، سواء كان ماء أو غيره، وسواء مات في المائع أو في غيره، ثم وقع فيه كسائر الحيوانات الدموية؛ لأن الدم السائل نجس فينجس ما يجاوره، إلا الآدمي إذا كان مغسولا؛ لأنه طاهر، ألا يرى أنه تجوز الصلاة عليه وإن كان مائيا كالضفدع المائي والسرطان ونحو ذلك، فإن مات في الماء لا ينجسه في ظاهر الرواية.

ترجمہ: جب کوئی حیوان قلیل مائع میں مر جائے تو اس کی تین صورتیں ہوں گی پہلی صورت یا تو اس میں بہنے والا خون ہوگا یا نہیں دوسری صورت یہ مرنے والا حیوان خشکی میں رہنے والا ہوگا یا پھر پانی میں رہنے والا نہیں ہوگا، تیسری صورت یہ مرنے والا حیوان یا تو پانی میں مرا ہو گا یا پانی کے باہر۔
اگر مرنے والے حیوان میں بہنے والا خون نہیں تھا جیسےمکھی، بھڑ، بچھو، مچھلی اور ٹڈی وغیرہ تو ان کے مرنے سے حوض بھی نجس نہیں ہو گا اور جس مائع یعنی بہنے والی شئے میں میں مریں گے وہ بھی نجس نہیں ہوگا خواہ وہ مائع پانی ہو یا اس کے علاوہ کوئی اور چیز جیسے سرکہ، دودھ، شیرہ اور ان جیسی دیگر چیزیں اسی طرح چاہے یہ خشکی میں رہنے والے ہوں یا پانی میں رہنے والے ہوں جیسے پانی میں رہنے والا بچھو وغیرہ اسی طرح مچھلی چاہے طافی ہو یا غیر طافی۔
اور ہم نے جو یہ بات ذکر کی ہے کہ مردار جانور کی نجاست اس کے مرنے کی وجہ سے نہیں ہے تو اس کی وجہ یہ کہ موت تو مچھلی اور ٹڈی میں بھی پائی جاتی ہے لیکن اس سے کوئی چیز نجس نہیں ہوتی، لہذا مردار کی نجاست کا اصل سبب اس میں بہنے والے خون کا پایا جانا ہے اور جبکہ ان چیزوں میں تو خون ہی نہیں ہوتا۔
اور اگر مائع چیز میں مرنے والے حیوان میں بہنے والا خون بھی ہو اور وہ خشکی میں بھی رہتا ہو تو اس کے مرنے سے حوض نجس ہوجوئے گا اور جس مائع یعنی بہنے والی شئے میں میں مرے گا وہ بھی نجس ہوجائے ہوگا خواہ وہ مائع پانی ہو یا اس کے علاوہ کوئی اور چیز، اسی طرح چاہے وہ حیوان مائع چیز میں مرے یا مرا تو باہر لیکن پھر اس حوض میں گرگیا جیسے کہ تمام دموی حیوان؛ اس لئے کہ بہنے والا خون نجس ہے لہذا یہ جس چیز سے بھی ملے گا وہ چیز بھی نجس ہوجائے گی سوائے انسان کے جبکہ اس نے غسل کیا ہوا ہو؛ اس لئے کہ اس صورت میں انسان پاک ہوگا اسی وجہ سے اس پر نماز پڑھنا بھی جائز ہے۔
اور اگر اس حیوان میں بہنے والےخون تو ہے لیکن وہ پانی میں رہتا ہے جیسے پانی میں رہنے والا مینڈک اور کیکڑا وغیرہ، یہ اگر پانی میں مر جائیں تو پانی نجس نہیں ہوگا، ظاہر الراوایۃ کے مطابق۔

(بدائع الصنائع، کتاب الطہارۃ، فصل فی بیان مقدار الذی یصیر بہ المحل نجسا، جلد1، صفحہ426 – 427، دار الکتب العلمیۃ)

محیط برہانی میں ہے:

البئر عندنا بمنزلة الحوض الصغير يفسد ماؤه بما يفسد به ماء الحوض الصغير لأن عرض الآبار في الغالب يكون أقل من عشر في عشر حتى لو كان بئراً عرضه عشرة في عشرة لا يحكم بوقوع النجاسة فيه ما لم يتغير لون الماء أو طعمه أو أثره.

ینی: ہمارے نزدیک کواں بمنزلہ چھوٹے حوض کے ہے۔ جس چیز سے چھوٹے حوض کا پانی ناپاک ہوتا ہے اسی سے کنویں کا پانی بھی ناپاک ہوجاتا ہے، اس لئے کہ اکثر طور پر کنوؤں کی پیمائش دس بائے دس سے کم ہوتی ہے حتی کہ اگر کسی کنویں کی پیمائش دس بائے دس ہو تو ایسا کنواں نجاست گرنے سے اس وقت تک ناپاک نہیں ہوگا جب تک اس کے پانی کا رنگ یا ذائقہ یا بو تبدیل نہیں جاتی۔

(المحيط البرهاني، کتاب الطہارات، الفصل الرابع فی المیاہ۔۔۔الخ، جلد1، صفحہ 100، دارالکتب العلمیۃ)

علامہ عالم بن العلاء الہندی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

“البئر عندنا بمنزلة الحوض الصغير يفسد ماؤها بما يفسد به الحوض الصغير “

ینی:ہمارے نزدیک کواں بمنزلہ چھوٹے حوض کے ہے۔ جس چیز سے چھوٹے حوض کا پانی ناپاک ہوتا ہے اسی سے کنویں کا پانی بھی ناپاک ہوجاتا ہے۔

(الفتاوی التاتارخانیہ، کتاب الطهارة، فصل في المياه، جلد1، صفحہ312، مطبوعہ: مکتبہ زکریا)

مزید فرماتے ہیں:

“فأرة وقعت في البئر أو عصفورة أو دجاجة أو شاة أو سنور وأخرجت منه حية لايتنجس الماء ولا يجب نزح شيء منه “

یعنی: کچھ پانی نکال لینا مستحب ہے، اگر چوہا یا چڑیا یا مرغی یا بکری یا بلا کوئیں میں میں گریں اور اس سے زندہ نکل آئیں تو پانی ناپاک نہیں ہو گا اور نہ ہی اس سے پانی نکالنا واجب ہوگا۔

(الفتاوی التاتارخانیہ، کتاب الطهارة، فصل في المياه، جلد1، صفحہ313- 314، مطبوعہ: مکتبہ زکریا)

نور الایضاح مع مراقی الفلاح میں ہے:

(البئر الصغیرۃ) و هي ما دون عشر في عشر ۔

ترجمہ: (چھوٹا کنواں) وہ کہلاتا ہے کہ جو دہ دردہ نہ ہو۔

(نور الایضاح مع مراقی الفلاح، کتاب الطہارۃ، فصل فی مسائل الآبار، صفحہ36، مکتبۃ المدینۃ)

صدرالشریعہ علامہ امجد علی اعظمی رحمہ الله علیہ فرماتے ہیں:

“سوئر کے سوااگر اور کوئی جانور کوئیں میں گرا اور زندہ نکل آیا اور اس کے جِسْم میں نَجاست لگی ہونایقینی معلوم نہ ہو، اور پانی میں اس کا مونھ نہ پڑا تو پانی پاک ہے، اس کا استعمال جائز، مگر اِحْتِیاطاً بیس ۲۰ ڈول نکالنا بہترہے اوراگراس کے بدن پر نَجاست لگی ہونا یقینی معلوم ہو تو کل پانی نکالا جائے اور اگر اس کا مونھ پانی میں پڑا تو اس کے لُعاب اور جھوٹے کا جو حکم ہے وہی حکم اس پانی کا ہے، اگر جھوٹا ناپاک ہے یا مشکوک تو کل پانی نکالا جائے اور اگر مکروہ ہے تو چوہے وغیرہ میں بیس ۲۰ ڈول، مرغی چھوٹی ہوئی میں چالیس ۴۰ اور جس کا جھوٹا پاک ہے اس میں بھی بیس ۲۰ ڈول نکالنا بہتر ہے، مثلاً بکری گری اور زندہ نکل آئی، بیس ۲۰ ڈول نکال ڈالیں۔”

(بہار شریعت، حصہ2، جلد1، صفحہ339، مطبوعہ: مکتبۃ المدینه)

فتاوی رضویہ میں ہے:

دہ در دہ کا رنگ یا بُو یا ذائقہ اگر نجاست ملنے کے سبب بدل جائے تو ضرور ناپاک ہوجائے گا اور پاک چیزوں کے سڑنے یا بہت دن گزرنے سے تینوں وصف بدل جائیں تو کچھ حرج نہیں۔۔۔درمختار میں ہے:

ینجس بتغیر احد اوصافہ من لون اوطعم او ریح بنجس لا لو تغیر بطول مکث۔۔۔ویجوز بماء خالطہ طاھر جامد کاشنان وزعفران وفاکھۃ ورق شجر وان غیر کل اوصافہ۔

ترجمہ: نجاست ملنے سے پانی کے رنگ یا ذائقے یا بُو میں سے کسی ایک وصف کے بدلنے سے پانی ناپاک ہوجاتا ہے ز یادہ ٹھہرنے کی وجہ سے تبدیل ہوتو ناپاک نہیں ہوتا اور اس پانی سے وضو جائز ہے جس میں کوئی ٹھوس پاک چیز مثلاً اُشنان،زعفران، پھل اور درختوں کے پتّے مل جائیں اگرچہ وہ اس کے تمام اوصاف بدل دے۔

(فتاوی رضویہ، جلد4، صفحہ333-334، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

واللّٰه تعالی اعلم بالصواب۔
کتبه: ندیم عطاری مدنی حنفی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں