بڑی عمر والے کا اسلام قبول کرنے پر ختنے کا حکم

بڑی عمر والے کا اسلام قبول کرنے پر ختنے کا حکم

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ بندہ بڑی عمر میں اسلام قبول کرے تو اس کے ختنے کے بارے میں کیا شرعی حکم ہے؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب

صورت مستفسرہ کے مطابق ختنہ کروانا مرد کے لئے سنت مؤکدہ ہے چاہے صغیر ہو یا کبیر پس اگر بڑی عمر میں مسلم قبول کیا تو ختنہ کروانا ہوگا اور بہتر یہ ہے کہ خود کرے اور اگر خود نہیں کرسکتا تو اس کی زوجہ سے کروالے اور اگر یہ بھی ممکن نہیں تو طبیب سے بقدر ضرورت ستر کھول کر کرواسکتا ہے اور اگر اسلام لانے والا اتنا عمر رسیدہ ہے کہ اب اس کو ختنہ کی طاقت نہیں تو اس کے لیے اس کا ترک کرنا جائز ہوگا ۔

بخاری و مسلم میں ہے

”وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” الْفِطْرَةُ خَمْسٌ: الْخِتَانُ وَالِاسْتِحْدَادُ وَقَصُّ الشَّارِبِ وَتَقْلِيمُ الْأَظْفَارِ وَنَتْفُ الإِبِطِ“

ترجمہ:روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ پانچ چیزیں فطرت سے ہیں ختنہ کرنا استرا لینا مونچھیں کاٹنا ناخن تراشنا اور بغل کے بال اکھیڑنا (مسلم،بخاری)

مراۃ المناجیح میں ہے:

”ختنہ امام اعظم کے ہاں سنت ہے ،امام شافعی کے ہاں فرض۔سات سال کی عمر تک ختنہ کردینا چاہیے،نو مسلم جوان آدمی کا نکاح ایسی عورت سے کردیا جاوے جو ختنہ کرنا جانتی ہو پھر ختنہ کے بعد چاہے تو طلاق دیدے،جو بچہ ختنہ شدہ پیدا ہو اس کے ختنہ کی ضرورت نہیں۔( مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح باب کنگھی کا بیان جلد:6 , حدیث نمبر:4420 مطبوعہ مکتبہ المدینہ کراچی )

سنن ابو داؤد میں ہے

”حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ خَالِدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أُخْبِرْتُ عَنْ عُثَيْمِ بْنِ كُلَيْبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْجَدِّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ قَدْ أَسْلَمْتُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَلْقِ عَنْكَ شَعْرَ الْكُفْرِ يَقُولُ:‏‏‏‏ احْلِقْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وأَخْبَرَنِي آخَرُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ لِآخَرَ مَعَهُ:‏‏‏‏ أَلْقِ عَنْكَ شَعْرَ الْكُفْرِ وَاخْتَتِنْ “

ترجمہ: عُثیم بن کُلیب اپنے والد اور وہ اپنے جد سے روایت کرتے ہیں کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور بولے: میں اسلام لے آیا ہوں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: تم اپنے ( بدن ) سے کفر کے بال صاف کراؤ ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: بال منڈوا لو ۔ راوی کا بیان ہے کہ ایک دوسرے شخص نے مجھے یہ خبر دی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے شخص سے جو ان کے ساتھ تھا فرمایا: تم اپنے ( بدن ) سے کفر کے بال صاف کرو اور ختنہ کرو ۔ (سنن ابو داؤد جلد 1 صفحہ 52 مطبوعہ کراچی)

الفواکہ الدواني اور الموسوعة الفقھیة میں ہے

”والختان للرجال) فإنہ (سنة مؤکدة) في حق الصغیر والکبیر“

ختنہ کروانا مرد کا یہ سنت مؤکدہ ہے چاہے صغیر ہو یا کبیر۔․(الفواکہ الدواني، باب فی الفطرة والختان جلد 2 صفحہ 394 مطبوعہ دارالکتب العلمیة،الموسوعة الفقھیة جلد 19 صفحہ 27 مطبوعہ بیروت )

فتاویٰ ھندیہ میں ہے

”قيل في ختان الكبير إذا أمكن أن يختن نفسه فعل وإلا لم يفعل إلا أن يمكنه أن يتزوج أو يشتري ختانة فتختنه وذكر الكرخي في الجامع الصغير ويختنه الحمامي كذا في الفتاوى العتابيہ“

ترجمہ:اور کہا گیا اگر مرد ختنہ کرسکتا ہے تو خود کرے ۔پس اگر خود نہیں کرسکتا تو ممکن ہو تو ایسی عورت سے شادی کرلے جو ختنہ کرسکتی ہو یا باندی خرید لے جو ختنہ کرسکیں اور امام کرخی نے جامع الصغیر میں ذکر کیا ہے کہ ورنہ وہ حمام (حجام کرنے والے) سے ختنہ کروائے۔.(الفتاوى الهندية ، كتاب الكراهية ، الباب التاسع عشر في الختان ، جلد5 صفحہ 2620 مطبوعہ بیروت)

بدائع الصنائع میں ہے

”یحل للرجال أن ینظر من الرجل إلیٰ سائر جسدہ إلا مابین السرة والرکیة إلا عند الضرورة، فلا بأس أن ینظر الرجل إلیٰ موضع الختان لیختنہ “

ترجمہ:اور حلال ہے مرد کے تمام جسم پر نظر کرنا سوائے ناف کے نیچے سے لے کر گھٹنے تک اور ضرورت ہو تو اس کی طرف نظر کرنا بھی جائز ہے پس اگر ختنہ کرنے کے لیے موضع ختنہ پر نظر کرنے میں حرج نہیں۔( بدائع الصنائع، کتاب الاستحسان جلد 5 صفحہ 123 مطبوعہ دارالکتب العلمیة )

مبسوط سرخسی میں ہے

”إذا جاء عذر فلا بأس بالنظر إلیٰ عورة لأجل الضرورة، فمن ذٰلک أن الخاتن ینظر ذٰلک الموضع والخافضة کذٰلک تنظر، لأن الختان سنة، وھو من جملة الفطرة في حق الرجال لا یمکن ترکہ“

ترجمہ: جب عذر ہو تو ضرورت کی بناء پر مرد کے ستر پر نظر کرنے میں حرج نہیں اور اگر ختنہ کروانا ہو تو خاتن کا موضع ختنہ پر نظر کرنا درست ہے کیونکہ ختنہ کرنا سنت ہے اور یہ فطرت میں سے ہے اور اس کو ترک کرنا ممکن نہیں۔( المبسوط للسرخسي، کتاب الاستحسان، النظر إلیٰ الأجنبیات جلد1 صفحہ 163 مطبوعہ کوئٹہ)

ردالمختار میں ہے

”(و) الأصل أن (الختان سنة) كما جاء في الخبر (وهو من شعائر الإسلام) وخصائصه ۔۔۔۔۔۔ فلا يترك إلا لعذر وعذر شيخ لا يطيقه “

ترجمہ:اور اصل یہ ہے کہ ختنہ کرنا سنت ہے جیسا کہ خبر میں ہے کہ یہ شعائر اسلام اور اس کے خصائص میں سے ہے پس اس کو ترک نہیں کرسکتے مگر عذر کی بناء پر کہ اگر کوئی شخص اتنا بوڑھا ہے کہ اس کی طاقت نہیں رکھتا۔(الدرالمختار ، كتاب الحظر والإباحة ، جلد 7 صفحہ 213 مطبوعہ بیروت)

فتویٰ ھندیہ میں ہے

”واختلفو في الختان، قیل:”إنہ سنة“، وھو الصحیح… الشیخ الضعیف إذا أسلم ولا یطیق الختان، إن قال أھل البصر لا یطیق، یُترَک، لأن ترک الواجب بالعذر جائز، فترک السنة أولی، کذا في الخلاصة“

ترجمہ: اختلاف ہے ختنہ میں اور صحیح یہ ہے کہ یہ سنت ہے پس اگر کوئی بوڑھا شخص مسلمان ہوجائے اور وہ اس کی طاقت نہیں رکھتا اور اہل نظر اس بات کی تصدیق کرے کہ یہ اس کی طاقت نہیں رکھتا تو چھوڑ سکتا ہے کیونکہ ترک واجب عذر کی وجہ سے جائز ہوتا ہے تو ترک سنت تو بدرجہ اولیٰ جیسا کہ خلاصہ میں ہے۔(الفتاویٰ الھندیة، کتاب الکراھیة، الباب التاسع عشر في الختان جلد 5 صفحہ 375 مطبوعہ بیروت)

فتویٰ رضویہ میں اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت، مولیٰناشاہ امام اَحمد رَضا خان علیہ رحمۃُ الرَّحمٰن فرماتے ہیں:

” ہاں اگر خود کر سکتا ہو تو آپ اپنے ہاتھ سے کر لے یا کوئی عورت جو اس کا م کو کرسکتی ہو، ممکن ہو تو اُس سے نکاح کرادیا جائے وہ ختنہ کردے ، اس کے بعد چاہے تو اسے چھوڑ دے یا کوئی کنیزِ شرعی واقِف ہو تو وہ خرید دی جائے ۔ اور اگر یہ تینوں صورَتیں نہ ہو سکیں تو حجام ختنہ کردے کہ ایسی ضَرورت کیلئے سِتْر دیکھنا دِکھانا مَنع نہیں ۔“(فتویٰ رضویہ جلد 22 صفحہ 593 مطبوعہ رضا فائونڈیشن لاہور)

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبـــــــــــــــــــــــــــہ

ممبر فقہ کورس

24 ربیع الاول 1445ھ11اکتوبر 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں