بے وضو کا دینی کتب چھونا

بے وضو کا دینی کتب چھونا

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ بے وضو کا قرآن کے علاوہ کتب تفاسیر، احادیث و فقہ کا چھونا کیسا ہے؟

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوہاب الھم ہدایۃ الحق و الصواب

صورت مسئولہ میں حکم یہ کہ ہمارے ہاں تفاسیر دو طرح کی ہیں:

(1) مختصر تفسیر جو عموماًقرآن کی سائیڈوں پر ہوتی ہے جیسے خزائن العرفان و نور العرفان وغیرہ ان کوبغیر طہارت کے چھونا جائز نہیں کیونکہ یہ قرآن کے تابع ہی شمار ہوتی ہے اور قرآن یا اس کے توابع کو بغیر وضو نہیں چھوا جا سکتا۔ ہاں کسی ایسے کپڑے کے ذریعے چھونا جائز ہے جو نہ اپنے تابع ہو اور نہ قرآن مجید کے تابع ہو۔

(2) اوراگر تفسیر کی کتاب ایسی ہو کہ جس میں تفسیر کا کلام زیادہ اور قرآن کم و تابع ہو(جیسے صراط الجنان،تفسیر مظہری،روح المعانی وغیرہ) جس کی وجہ سے اسے قرآن نہیں بلکہ تفسیر کہا جاتا ہوتو پھرآیات والی جگہ چھوڑ کر بقیہ کو بغیرطہارت کے چھونا جائز ہے لیکن شرعاً ناپسندیدہ ہے لہٰذا افضل یہی ہے کہ ان کو بھی طہارت حاصل کرنے کے بعد ہی چھوا جائے اور اگر کسی کپڑے وغیرہ کے ذریعے چھوا جائے تو پھر کوئی حرج نہیں ۔

باقی کتب احادیث و فقہ کو بے وضو چھوناجائز ہے البتہ باوضو ہونا بہتر ہے۔ ہاں دینی کتب کے جس مقام پر آیت قرآنیہ ہو اس مقام کو چھونا ناجائز و حرام ہے۔

درمختار و ردالمحتار میں ہے:

” وفی الاشباہ …وقد جوز أصحابنا مس کتب التفسیر للمحدث ولم یفصلوا بین کون الأکثر تفسیرا أو قرآنا ولو قیل بہ (بأن یقال إن کان التفسیر أکثر لا یکرہ وإن کان القرآن أکثر یکرہ) اعتبارا للغالب لکان حسنا (وبہ یحصل التوفیق بین القولین)ملتقطا “

ترجمہ: اشباہ میں ہے کہ ہمارے علماء نے بے وضو شخص کا کتب ِتفاسیر کو چھونا،جائز قرار دیا ہے اوراس میں تفسیر یا قرآن کے زیادہ ہونے کی تفصیل بیان نہیں کی، البتہ اگر اس تفصیل کے ساتھ قول کیا جائے، تو بہت اچھا ہے ، یعنی یوں کہا جائے کہ اگر تفسیر زیادہ ہے ، تو مکروہ نہیں اور اگر قرآن زیادہ ہے ، تو پھر مکروہ ہے، غالب کا اعتبار کرتے ہوئے ۔ اور اس تفصیل سے دونوں اقوال میں تطبیق پیدا ہو جاتی ہے۔ (ردالمحتار مع الدرالمختار، کتاب الطھارۃ، جلد1، صفحہ177، دارالفکر،بیروت)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے

”وفي الخلاصة يكره مس كتب الأحاديث والفقه للمحدث عندهما وعند أبي حنيفة الأصح أنه لا يكره “

اور خلاصۃ میں ہے کہ کتب احادیث اور کتب فقہ کو چھونا محدث کے لیے مکروہ ہے صاحبین کے نزدیک اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک مکروہ نہیں ہے اور یہی صحیح ہے۔(البحر الرائق شرح كنز الدقائق ،جلد 1 ،صفحہ 212، مطبوعہ ،بیروت)

درمختار مع ردالمختار میں ہے:

” قال في الخلاصة: ويكره مس المحدث المصحف كما يكره للجنب، وكذا كتب الأحاديث والفقه عندهما. والأصح أنه لا يكره عنده. اهـ. قال في شرح المنية: وجه قوله إنه لا يسمى ماسا للقرآن؛ لأن ما فيها منه بمنزلة التابع اهـ ومشى في الفتح على الكراهة فقال: قالوا: يكره مس كتب التفسير والفقه والسنن؛ لأنها لا تخلو عن آيات القرآن، وهذا التعليل يمنع من شروح النحو. اهـ.

(قوله: لكن في الأشباه إلخ) استدراك على قوله والتفسير كمصحف، فإن ما في الأشباه صريح في جواز مس التفسير، فهو كسائر الكتب الشرعية، بل ظاهره أنه قول أصحابنا جميعا، وقد صرح بجوازه أيضا في شرح درر البحار. وفي السراج عن الإيضاح أن كتب التفسير لا يجوز مس موضع القرآن منها، وله أن يمس غيره وكذا كتب الفقه إذا كان فيها شيء من القرآن، بخلاف المصحف فإن الكل فيه تبع للقرآن. اهـ. والحاصل أنه لا فرق بين التفسير وغيره من الكتب الشرعية على القول بالكراهة وعدمه، ولهذا قال في النهر: ولا يخفى أن مقتضى ما في الخلاصة عدم الكراهة مطلقا؛ لأن من أثبتها حتى في التفسير نظر إلى ما فيها من الآيات، ومن نفاها نظر إلى أن الأكثر ليس كذلك، وهذا يعم التفسير أيضا، إلا أن يقال إن القرآن فيه أكثر من غيره اهـ أي فيكره مسه دون غيره من الكتب الشرعية، كما جرى عليه المصنف تبعا للدرر، ومشى عليه في الحاوي القدسي وكذا في المعراج والتحفة فتلخص في المسألة ثلاثة أقوال قال ط: وما في السراج أوفق بالقواعد. اهـ. أقول: الأظهر والأحوط القول الثالث: أي كراهته في التفسير دون غيره لظهور الفرق، فإن القرآن في التفسير أكثر منه فيغيره، وذكره فيه مقصود استقلالا لا تبعا، فشبهه بالمصحف أقرب من شبهه ببقية الكتب. والظاهر أن الخلاف في التفسير الذي كتب فيه القرآن بخلاف غيره كبعض نسخ الكشاف تأمل. “

ترجمہ: خلاصہ میں فرمایا:بےوضوکا مصحف شریف کو چھونا مکروہ ہے جیسا کہ جنبی شخص(جس پر غسل لازم ہو)کو اور یہی حکم حدیث اور فقہ کی کتابوں کا ہے صاحبین کے نزدیک ،اوراصح( زیادہ صحیح قول )یہ ہے کہ امام اعظم علیہ الرحمہ کے نزدیک مکروہ نہیں ہے ۔منیہ کی شرح میں ارشاد فرمایا:امام اعظم علیہ الرحمہ کے فرمان کی وجہ یہ ہے کہ وہ قرآن پاک کو چھونے والا نہیں ہے اس لئے کہ مصحف میں جو قرآن ہے وہ تابع ہے۔ فتح القدیر میں(اس چھونے کی) مکروہ کو ہی برقرار رکھا،اور کہاکہ فقہائے کرام نے فرمایا: تفسیر ،فقہ اور حدیث کی کتابوں کو (بلاوضو) چھونا مکروہ ہے اس لئے کہ یہ کتابیں قرآن پاک کی آیات سے خالی نہیں ہوتی ،اور یہ تعلیل تو نحو کی شروحات سے بھی منع کرتی ہے ۔

مصنف کا فرمانا (لیکن اشباہ میں ہے الخ)یہ استدراک ہے مصنف کے اس قول پر کہ تفسیر مصحف کی طرح ہے ،اس لئے کہ جواشباہ میں لکھا ہے وہ واضح ہے اس بات میں کہ تفسیر کو چھونا جائز ہے اور یہ تمام دینی کتابوں کی طرح ہے ،بلکہ اس کا ظاہر یہ ہے کہ یہ ہمارے تمام اصحاب کا فرمان ہے ،اور تحقیق اس کے جواز کی صراحت دررالبحار کی شرح میں بھی کی گئی ہے اور سراج میں ایضاح کے حوالہ سے لکھا ہے کہ تفسیر کی کتابوں میں جہاں قرآن پاک لکھا ہے اسے چھونا جائز نہیں ہے ،اور جہاں قرآن پاک لکھا ہوا ہے اس کے علاوہ کو (بلاوضو )چھونے کی اجازت ہے۔یہی حکم فقہ کی کتابوں کا ہے جب ان میں قرآنی آیات ہوں بر خلاف مصحف شریف کے وہ سارے کا سارا قرآن پاک کے تابع ہے ۔

خلاصہ یہ ہے کہ کراہت کا قول کریں یا نہ کریں دونوں صورتوں میں تفسیر او راس کے علاوہ دینی کتابوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے ،اسی وجہ سے نھر میں فرمایا :کچھ پوشید ہ نہیں ہےاس بارے میں کہ خلاصہ میں جو ہے اس کے مطابق بالکل کراہت نہیں ہے۔ (ساری گفتگو کی توجیہ یہ ہے کہ )کہ جس نے کراہت کا حکم برقرار رکھا یہاں تک کہ کتب تفسیر میں بھی تو اس نے اس میں موجود قرآنی آیات کی طرف دیکھا ،اور جس نے کراہت کی نفی کی ہے اس نے اس بات کو مدنظر رکھا کہ اکثر قرآن پاک نہیں ہے اور یہ حکم تفسیر کو بھی شامل ہے مگر یہ حکم تب نہیں ہوگا جب قرآن پاک تفسیر کی بنسبت زیادہ ہو ۔پس اس کے علاوہ دینی کتابوں کو چھونا مکروہ ہے جیسا کہ مصنف علیہ الرحمہ اس کے در پے ہوئے درر کی پیروی میں ، حاوی قدسی میں بھی اسی کو برقرار رکھا ،ایسے ہی معراج اور تحفہ میں ہے ، اس مسئلہ میں تین اقوال سامنے آئے۔امام طحاوی نے فرمایا :اور جو کچھ سراج میں ہے وہ قواعد کے زیادہ موافق ہے ،میں کہتا ہوں :زیادہ ظاہر اور زیادہ احتیاط والا تیسرا قول ہے ،یعنی کتب تفسیر کو چھونا مکروہ ہے نہ کہ اس کے علاوہ دینی کتب ،فرق واضح ہے ،اس لئے کہ تفسیر میں قرآن پاک زیادہ ہوتاہے تو وہ اس کے حکم کوبھی بقیہ سے جدا کر دے گا ،اور قرآن پاک کا اس میں موجود ہونا مستقلا مقصود ہے نہ کہ تابع،لہذا تفسیر کی مشابہت مصحف کے ساتھ بقیہ دینی کتابوں کی بنسبت زیادہ ہے اور ظاہر ہے کہ کتب تفسیر میں اختلاف اس تفسیر والی کتاب میں ہے جس میں قرآن پاک لکھا گیا ہے نہ کہ دوسری کتابوں میں جیسا کہ کشاف کے بعض نسخے۔ پس اس میں غورکریں ۔ (درمختار مع ردالمحتار،کتاب الطہارۃ، مطلب:یطلق الدعاء۔۔۔ إلخ، ج1، ص176،دار الفکر بیروت)

مراقی الفلاح مع طحطاوی میں ہے

”و” القسم “الثالث” وضوء “مندوب” في أحوال كثيرة كمس الكتب الشرعية ورخص مسها للمحدث إلا التفسير كذا في الدرر۔۔۔قوله: “كمس الكتب الشرعية ” نحو الفقه والحديث والعقائد فيتطهر لها تعظيما قال الحلواني إنما نلنا هذا العلم بالتعظيم فإني ما أخذت الكاغد إلا بطهارة والسرخسي حصل له في ليلة داء البطن وهو يكرر درس كتابه فتوضأ تلك الليلة سبع عشرة مرة“

ترجمہ:اور وضو کی تیسری قسم وہ وضو جو کئی احوال میں مستحب ہو جیسے شرعی کتابوں کو چھونا،اور علما نے محدث یعنی بے وضو کو انہیں(مذکورہ کتب شرعیہ کو) چھونے کی رخصت دی ہے،سوائے کتب تفسیر کے اسی طرح درر میں ہے۔

مصنف کا قول جیسا کہ کتب شرعیہ کو چھونا جیسے فقہ،حدیث اور عقائد کی کتابیں،ہان ان کیلئے کی تعظیم کی خاطر پاکی حاصل کر لے۔ حلوانی نے فرمایا ہم نے اس علم کو تعظیم کر کے حاصل کیا ہے بیشک میں نے کاغذ بھی پاکی کی حالت میں اٹھایا ہے۔ اور سرخسی کے بارے میں ہے کہ انہیں ایک رات پیٹ کی بیماری تھی اور کسی کتاب کے سبق کا تکرار کر رہے تھے تو انہیں سترہ بار وضو کرنا پڑا۔(حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح،کتاب الطہارۃ،فصل في أوصاف الوضوء،ص83،دار الکتب العلمیہ بیروت )

ردالمحتار میں ہے

”فی السراج عن الایضاح ان کتب التفسیر لایجوز مس موضع القراٰن منہا ولہ ان یمس غیرہ وکذا کتب الفقہ اذا کان فیہا شیئ من القراٰن بخلاف المصحف فان الکل فیہ تبع للقراٰن“

ترجمہ:سراج میں ایضاح کے حوالے سے ہے کہ کتب تفسیر میں جہاں قرآن لکھا ہوا ہے اس جگہ کو چھونا جائز نہیں، اور وہ دوسری جگہ کوچھوسکتاہے۔ یہی حکم کتب فقہ کاہے جب ان میں قرآن سے کچھ لکھا ہوا ہو، بخلاف مصحف کے کہ اس میں سب قرآن کے تابع ہیں۔(ردالمحتار، کتاب الطہارۃ،قبیل باب المیاہ،ج1،ص176، دار الفکر بیروت)

فتاوی رضویہ میں ہے:

” محدث کو مصحف چھونا مطلقاً حرام ہے خواہ اُس میں صرف نظم قرآن عظیم مکتوب ہو یا اُس کے ساتھ ترجمہ وتفسیر ورسم خط وغیرہا بھی کہ ان کے لکھنے سے نامِ مصحف زائل نہ ہوگا آخر اُسے قرآن مجید ہی کہا جائے گا ترجمہ یا تفسیر یا اور کوئی نام نہ رکھا جائےگا یہ زوائد قرآن عظیم کے توابع ہیں اور مصحف شریف سے جُدا نہیں ولہٰذا حاشیہ مصحف کی بیاض سادہ کو چھُونا بھی ناجائز ہوا بلکہ پٹھوں کو بھی بلکہ چولی پر سے بھی بلکہ ترجمہ کا چھونا خود ہی ممنوع ہے اگرچہ قرآن مجید سے جُدا لکھا ہو۔۔۔۔۔

ف:مسئلہ کتب تفسیر و حدیث و فقہ میں جہاں آیت لکھی ہو خاص اس جگہ بے وضو ہاتھ لگانا حرام ہے باقی عبارت میں افضل یہ ہے کہ باوضو ہو۔“(فتاوی رضویہ،جلد1(ب)، صفحہ1075، رضا فاونڈیشن لاہور)

واللہ تعالیٰ اعلم و رسولہ اعلم باالصواب

صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و اصحابہ و بارک و سلم

ابوالمصطفٰی محمد شاہد حمید قادری

22ربیع الآخر1445ھ

7نومبر2023ء منگل

نظرثانی و ترمیم:

مفتی محمد انس رضا قادری

اپنا تبصرہ بھیجیں