جسم پر زخم یا خراش کی وجہ سے خون نکلا بہا نہیں اور دو سے زائد جگہ پر ایسا ہوا، کیا وضو ٹوٹ جائے گا؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین مسئلہ ذیل میں کہ جسم پر زخم یا خراش کی وجہ سے خون نکلا بہا نہیں اور دو سے زائد جگہ پر ایسا ہوا، کیا وضو ٹوٹ جائے گا؟

سیدی یہ بھی ارشاد فرما دیں کہ کیا ڈاکٹر کے زخم صاف کرنے سے وضو ٹوٹ جائے گا؟

اور بہنے کی تعریف ( یعنی مقدار )بھی ارشاد فرما دیں۔ بینوا توجروا۔  (سائل محمد انور )

جواب: الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب۔

جسم پر زخم یا خراش کی وجہ سے خون نکلا اور بہا نہیں تو وضو نہیں ٹوٹے گا اگرچہ دو سے زائد جگہ پر ایسا ہوا ہو، یونہی اگر خون بہنے کی مقدار میں نہ ہو تو ڈاکٹر وغیرہ کے صاف کرنے سے وضو نہیں ٹوٹے گا ہاں اگر زخم سے خون وغیرہ نکلتا رہا اور یہ بار بار پونچھتا رہا کہ بہنے کی نوبت نہ آئی تو غور کرے کہ اگر نہ پونچھتا تو، بہ جاتا یا نہیں اگر بہ جاتا تو وُضو ٹوٹ گیا ورنہ نہیں۔

بہنے کی تعریف یہ ہے کہ خون ابھر کر زخم کے سر سے بہہ جائے۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے: ” الدَّمُ إذَا عَلَا عَلَى رَأْسِ الْجُرْحِ لَا يَنْقُضُ الْوُضُوءَ “۔

” وَحَدُّ السَّيَلَانِ أَنْ يَعْلُوَ فَيَنْحَدِرَ عَنْ رَأْسِ الْجُرْحِ “

ترجمہ: اگر خون زخم کے سر سے ابھرا ( یعنی چمکا، بہا نہیں ) تو وضو کو نہیں توڑے گا۔

اور بہنے کی تعریف یہ ہے کہ خون ابھر کر زخم کے سر سے بہہ جائے۔

( الفتاوی الھندیۃ، کتاب الطہارۃ، الباب الأول في الوضوء، الفصل الخامس، جلد 01، صفحہ 10، مطبوعہ دار الفکر بیروت بتغیر )

الهدایہ فی شرح بدایۃ المبتدی میں ہے : ” والدم والقيح إذا خرجا من البدن فتجاوزا إلى موضع يلحقه حكم التطهير “.

ترجمہ: (اور وضو توڑنے والی چیزوں میں سے ) خون اور پیپ کا نکلنا ہے اس وقت جب یہ بدن سے نکلیں اور ایسی جگہ پہنچ جائیں جسے تطہیر ( یعنی وضو یا غسل میں دھونے ) کا حکم دیا گیا ہے۔ ( الهدایہ فی شرح بدایۃ المبتدی، فصل فی نواقض الوضوء، جلد 01، صفحہ 17، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت – لبنان )

میرے آقا اعلیٰ حضرت فتاویٰ رضویہ میں اسی طرح کے سوال کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: ” دوم: ابھرنا کہ خون و ریم (یعنی پیپ) اپنی جگہ سے بڑھ کر جسم کی سطح یا دانے کے منہ سے اوپر ایک ببولے کی صورت ہو کر رہ گیا کہ اس کا جرم سطحِ جسم و آبلہ سے اُوپر ہے مگر نہ وہاں سے ڈھلکا نہ ڈھلکنے کی قوت رکھتا تھا جیسے سُوئی چبھونے میں ہوتا ہے کہ خون کی خفیف بوند نکلی اور نقطے یا دانے کی شکل پر ہو کر رہ گئی آگے نہ ڈھلکی اور اسی قسم کی اور صُورتیں، ان میں بھی ہمارے علماء کے مذہب اصح میں وضو نہیں جاتا، یہی صحیح ہے اور اسی پر فتوٰی اور اسی حکم میں داخل ہے یہ کہ خون یا ریم اُبھرا اور فی الحال اس میں قوتِ سیلان نہیں اُسے کپڑے سے پونچھ ڈالا دوسرے جلسے میں پھر اُبھرا اور صاف کردیا یوں ہی مختلف جلسوں میں اتنا نکلا کہ اگر ایک بار آتا ضرور بہہ جاتا تو اب بھی نہ وضو جائے نہ کپڑا ناپاک ہو کہ ہر بار اُتنا نکلا ہے جس میں بہنے کی قوت نہ تھی۔ ہاں جلسہ واحدہ میں ایسا ہوا تو وضو جاتا رہے گا کہ مجلس واحد کا نکلا ہوا گویا ایک بار کا نکلا ہوا ہے۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 01، صفحہ 371، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور )

بہارِ شریعت میں ہے: ” خون یا پیپ یا زرد پانی کہیں سے نکل کر بہا اور اس بہنے میں ایسی جگہ پہنچنے کی صلاحیت تھی جس کا وُضو یا غسل میں دھونا فرض ہے تو وُضو جاتا رہا اگر صرف چمکا یا اُبھرا اور بہا نہیں جیسے سوئی کی نوک یا چاقو کا کنارہ لگ جاتا ہے اور خون اُبھر یا چمک جاتا ہے یا خِلال کیا یا مِسواک کی یا انگلی سے دانت مانجھے یا دانت سے کوئی چیز کاٹی اس پر خون کا اثر پایا یا ناک میں اُنگلی ڈالی اس پر خون کی سُرخی آگئی مگر وہ خون بہنے کے قابل نہ تھا تو وُضو نہیں ٹوٹا۔

زخم سے خون وغیرہ نکلتا رہا اور یہ بار بار پونچھتا رہا کہ بہنے کی نوبت نہ آئی تو غور کرے کہ اگر نہ پونچھتا تو، بہ جاتا یا نہیں اگر بہ جاتا تو وُضو ٹوٹ گیا ورنہ نہیں۔

( بہار شریعت جلد 01  حصہ دوم صفحہ 304- 305، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی )۔

واللہ اعلم عزوجل و رسولہ الکریم اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

                 کتبہ

سگِ عطار محمد رئیس عطاری بن فلک شیر غفرلہ

اپنا تبصرہ بھیجیں