کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ امام کے ساتھ ایک مرد اور ایک تقریباً دس سال کا بچہ ہے تو کیا یہ جماعت سے نماز ادا کرسکتے ہیں؟ نیزتراویح میں بھی اگر دیگر نمازوں کی جماعت کی مثل امام کے ساتھ ایک مقتدی ہوتو جماعت درست ہے؟
الجواب بعون الملک الوھاب اللہم ھدایۃالحق والثواب
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اگر امام کے ساتھ نماز کی سمجھ بوجھ رکھنے والا ایک بچہ اور مرد ہو تو وہ دونوں امام کے پیچھے کھڑے ہوکر جماعت سے نماز پڑھ سکتےہیں۔ اور تراویح کی جماعت میں بھی دیگر نمازوں کی جماعت کی طرح ایک مقتدی سے بھی جماعت درست ہے مگر وہ امام کی دائیں جانب اس طرح کھڑا ہو کہ اس کا گِٹّا امام کے گِٹّے سے آگے نہ ہو۔
فتاوٰی عالمگیری میں ہے:
اذا مع الامام رجل واحد او صبی یعقل الصلاۃ قام عن یمینہ وھوالمختار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔واذا کان معہ اثنان قاما خلفہ وکذٰلک اِذا کان احدھماصبیًا
(یعنی جب امام کے ساتھ ایک مرد یا نمازکی سمجھ بوجھ رکھنے والا ایک بچہ ہو تو وہ امام کی دائیں جانب کھڑا ہو اور یہی مختار ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جب امام کے ساتھ دو مرد ہوں تووہ دونوں (جماعت میں)امام کے پیچھے کھڑےہوں گے اگرچہ ان دونوں میں سے ایک بچہ ہو)
فتاوٰی عالمگیری/ھندیہ،دارالکتب العمیہ بیروت-لبنان،1421ھ _ 2000م،کتاب الصلٰوۃ،الباب الخامس فی الامامۃ،فصل خامس،ج1،ص98)
مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں:
اکیلا مقتدی مرد اگرچہ لڑکا ہو امام کی برابر دہنی جانب کھڑا ہو۔
اور فرماتے ہیں:
“دو مقتدی ہیں ایک مرد اور ایک لڑکا تو دونوں پیچھے کھڑے ہوں”
( “بہارِ شریعت”،مکتبۃالمینہ”جماعت کا بیان،ج1،حصہ3)
یہ احکام مطلق جماعت کے متعلق ہیں ان میں تراویح کی جماعت کا استثناء نہیں۔
واللہ اعلم باالصواب
کتبہ: محمد رضاءاللہ عطاری رضوی عفی عنہ الباری