اگر مقتدی عیدکی پہلی رکعت میں امام کی تکبیروں کے بعد شامل ہو تو وہ کب تکبیریں پڑھے گا ؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ
اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
1- اگر مقتدی نماز عید کی پہلی رکعت میں امام صاحب کی تکبیروں کے بعد اور رکوع سے پہلے نماز میں شامل ہوا ہے تو اس کے لئے شرعی حکم یہ ہے کہ وہ نماز شروع کرنے کے بعد پہلے اپنی رہ جانے والی زائد تکبیرات کہے ،اگرچہ امام نے قراءت شروع کردی ہو ، اور پھر تکبیرات کے بعد خاموشی سے امام کی قراءت سنے ۔
2- اور اگر مقتدی امام صاحب کے رکوع میں جانے کے بعد شامل ہوا ہے تو اسکے لئے شرعی حکم یہ ہے کہ اگر اسے غالب گمان ہو کہ وہ قیام کی حالت میں زائد تکبیرات کہہ کر امام کے ساتھ رکوع میں شامل ہو جائے گا تو قیام کی حالت میں تکبیریں کہے پھر رکوع میں شامل ہوجائے، اور اگر اسے غالب گمان ہو کہ زائد تکبیریں کہنے سے پہلے امام رکوع سے کھڑا ہو جائے گا تو حالت قیام میں تکبیریں نہ کہے بلکہ رکوع میں جاکر بغیر ہاتھ اٹھائے تکبیریں کہے، پھر اگر امام مقتدی کے تکبیرات عید مکمل کرنے سے پہلے رکوع سےکھڑا ہوجائے، تو اب امام کی پیروی کرتا ہوا رکوع سے کھڑا ہو جائے، جو تکبیریں رہ گئیں وہ ساقط ہوجائیں گی۔
درمختار عیدین کے باب میں ہے :”ولو ادرک المؤتم الامام فی القیام بعد ماکبر ،کبر فی الحال برأی نفسہ “ ترجمہ: اگر مقتدی نے امام کو قیام میں تکبیر کہنے کے بعد پایا تو وہ اسی وقت اپنی رائے کے مطابق تکبیر کہے۔
مذکورہ عبارت کے تحت علامہ شامی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں : ” وا ن کان الاما م شرع فی القرأۃکما فی الحلیۃ “ ترجمہ :اگرچہ امام نے قراءت شروع کر دی ہو (یعنی مقتدی نماز میں شامل ہوتے ہی اپنی تکبیریں کہے گا) جیسا کہ حلیہ میں ہے۔
(الدر المختار و رد المحتار، کتاب الصلاۃ ،باب العیدین،2/174)
مزید ایک اور مقام پر فرماتےہیں :” أما لو أدركه راكعا فإن غلب ظنه إدراكه في الركوع كبر قائما برأي نفسه ثم ركع، وإلا ركع وكبر في ركوعه خلافا لأبي يوسف ولا يرفع يديه لأن الوضع على الركبتين سنة في محله، والرفع لا في محله وإن رفع الإمام رأسه سقط عنه ما بقي من التكبير لئلا تفوته المتابعة ولو أدركه في قيام الركوع لا يقضيها فيه لأنه يقضي الركعة مع تكبيراتها “ ترجمہ : اگر اس نے امام کو رکوع میں پایا اور اسے ظن غالب ہے کہ وہ امام کو رکوع میں پالے گا تو حالت قیام میں اپنی رائے کےمطابق تکبیرات عید کہے ،ورنہ رکوع کرے اور رکوع میں تکبیریں کہے ،بخلا ف امام ابو یوسف کے اور رکوع میں تکبیر کہتےہوئے ہاتھ بلند نہیں کرےگا، کیونکہ رکوع میں گھٹنوں پر ہاتھ رکھنا سنت ہے ،ہاتھ بلند کرنے کا یہ محل نہیں ہےاور اگر امام رکوع سے اٹھ جائے،تو باقی تکبیرت ساقط ہوجائیں گی ، تاکہ امام کی متابعت فوت نہ ہو اور اگر اس نے امام کو رکوع سے اٹھنے کے بعدپایا تو اب تکبیریں نہیں کہےگا، کیونکہ ( بعد میں ) وہ تکبیرات کے ساتھ اس رکعت کی قضا کرے گا ۔
(الدر المختار و رد المحتار، کتاب الصلاۃ ،باب العیدین،2/174)
بہار شریعت میں ہے : ” پہلی رکعت میں امام کے تکبیر کہنے کے بعد مقتدی شامل ہوا تو اسی وقت تین تکبیریں کہہ لے اگرچہ امام نے قراء ت شروع کر دی ہو اور تین ہی کہے، اگرچہ امام نے تین سے زیادہ کہی ہوں اور اگراس نے تکبیریں نہ کہیں کہ امام رکوع میں چلا گیا تو کھڑے کھڑے نہ کہے بلکہ امام کے ساتھ رکوع میں جائے اور رکوع میں تکبیر کہہ لے اور اگر امام کو رکوع میں پایا اور غالب گمان ہے کہ تکبیریں کہہ کر امام کو رکوع میں پا لے گا تو کھڑے کھڑے تکبیریں کہے پھر رکوع میں جائے ورنہ اﷲ اکبر کہہ کر رکوع میں جائے اور رکوع میں تکبیریں کہے پھر اگر اس نے رکوع میں تکبیریں پوری نہ کی تھیں کہ امام نے سر اٹھا لیا تو باقی ساقط ہوگئیں اور اگر امام کے رکوع سے اٹھنے کے بعد شامل ہوا تو اب تکبیریں نہ کہے بلکہ جب اپنی پڑھے اس وقت کہے اور رکوع میں جہاں تکبیر کہنا بتایا گیا، اس میں ہاتھ نہ اٹھائے اور اگر دوسری رکعت میں شامل ہوا تو پہلی رکعت کی تکبیریں اب نہ کہے بلکہ جب اپنی فوت شدہ پڑھنے کھڑا ہو اس وقت کہے اور دوسری رکعت کی تکبیریں اگر امام کے ساتھ پا جائے، فبہا ورنہ اس میں بھی وہی تفصیل ہے جو پہلی رکعت کے بارہ میں مذکور ہوئی۔”
(بھارشریعت،ج1، ص787 ، حصہ چہارم ،مکتبۃالمدینہ کراچی )
(والله تعالى اعلم بالصواب)
کتبہ : ابو الحسن حافظ محمد حق نواز مدنی