اپنی رضاعی بہن کی بیٹی سے نکاح

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص اپنی رضاعی بہن کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہتا ہے، کیا اس کا نکاح کرنا جائز ہوگا۔ بینوا توجروا۔

الجواب بعون الملک الوھاب اللہم ھدایة الحق والصواب

رضاعی بہن کی بیٹی سے کسی صورت نکاح جائز نہ ہوگا کیونکہ وہ شرعاً اس کی بھانجی بن رہی ہے اور جو رشتے نسب سے حرام ہوتے ہیں، وہی رشتے رضاعت سے بھی حرام ہوتے ہیں۔

چنانچہ تبیین الحقائق میں ہے: یحرم علیہ جمیع من تقدم ذکرہ من الرضاع وھی امہ واختہ وبنات اخوتہ الخ۔

یعنی جتنی عورتیں مذکور ہوئیں سب دودھ کے رشتہ سے بھی حرام ہیں رضاعی ماں اور بیٹی اور بہن اور رضاعی بہن اور بھائی کی بیٹیاں۔ ( تبیین الحقائق فصل فی المحرمات مطبع الکبری الامیریہ مصر ۲/۱۰۳)

درمختار میں ہے: حرم علی المتزوج ذکرا او انثی اصلہ وفرعہ وبنت اخیہ واختہ وبنتھا والکل رضاعاً۔

یعنی ہر مرد وعورت پر اس کے ماں باپ، دادا دادی، نانا نانی، بیٹا بیٹی، پوتا پوتی، نواسا نواسی، بھتیجا بھتیجی، بہن اور بھائی کے بیٹا بیٹی خواہ یہ رشتے نسب سے ہوں یا دودھ سے، حرام ہیں۔(درمختار، فصل فی المحرمات مجتبائی دہلی ۱/۱۸۷)

جوہر نیرہ میں ہے: کذلک بنات اخیہ وبنات اختہ من الرضاعۃ لقول رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یحرم من الرضاع ماٰیحرم من النسب۔

یعنی نسبی کی طرح رضاعی بھائی بہن کی بیٹیاں بھی حرام ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: جو نسب سے حرام ہے وہ دودھ سے بھی حرام ہے۔ (الجوہرۃ النیرہ کتاب النکاح مکتبہ امدادیہ ملتان ۲/۶۸)

ان تمام نصوص جلیلہ میں بالاتفاق بلا خلاف صاف صاف واشگاف تصریحیں فرمائیں کہ رضاعی بھائی بہن کی بیٹیاں، بھانجی، بھتیجی نسبی کی طرح حرام قطعی ہیں۔

وَاللّٰہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

کتبہ

محمد منور علی اعظمی بن محمد شریف اعظمی غفرلہ

اپنا تبصرہ بھیجیں