دوسری شادی کرنا کیسا

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک شادی شدہ شخص اپنی پہلی بیوی سے خوش نہیں اور وہ دوسری شادی کرنا چاہتا ہے مگر سوسائٹی کے ڈر سے کہ لوگ طعنے دیں گے یا برا بھلا کہیں گے یا دونوں بیویوں کے حقوق پورے نہ کر سکنے کا ڈر ہو تو اس صورت میں دوسری شادی کرنا کیسا؟

الجواب بعون الملک الوہاب اللہم ھدایۃ الحق الصواب

شریعت مطہرہ نے مرد کو بیک وقت چار شادیاں کرنے کی اجازت دی ہے اگر وہ ان کے درمیان عدل کرسکتا ہوں یہ عدل لباس میں ، کھانے پینے میں ، رہنے کی جگہ میں اور رات کو ساتھ رہنے میں لازم ہے، اگرکوئی چار میں عدل نہیں کرسکتا لیکن تین میں کرسکتا ہے تو تین شادیاں کرسکتا ہے اور تین میں عدل نہیں کرسکتا لیکن دو میں کرسکتا ہے تو دو کی اجازت ہے اگر وہ دو میں عدل نہیں کرسکتا تو پھر دوسرے نکاح کی اجازت نہیں ہوگی نیز دوسرے نکاح میں یہ بھی ضروری نہیں کہ پہلی سے تنگ ہو اگر تنگ نہ بھی ہو دوسری بیوی کے حقوق پورے کرسکتا ہو دونوں میں عدل کر سکتا ہو تو نکاح کی اجازت ہوگی اور لوگوں کے طعنے سے بچنے کے لیے نکاح نہیں کررہا تب بھی کوئی حرج نہیں۔۔۔

اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے :

﴿ وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوْا فِي الْيَتَامٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانِكُمْ ذٰلِكَ أَدْنٰى أَلَّا تَعُوْلُوْا ﴾ (النساء: آیت نمبر 3)

ترجمہ کنز الایمان:
اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ یتیم لڑکیوں میں انصاف نہ کرو گے تو نکاح میں لاؤ جو عورتیں تمہیں خوش آئیں دو دو اور تین تین او ر چار چار پھر اگر ڈرو کہ دو بیبیوں کو برابر نہ رکھ سکو گے تو ایک ہی کرو یا کنیزیں جن کے تم مالک ہو یہ اس سے زیادہ قریب ہے کہ تم سے ظلم نہ ہو۔

اسی آیت کریمہ کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ آیت میں چار تک شادیاں کرنے کی اجازت دی گئی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی فرمایا کہ اگر تمہیں اس بات کا ڈر ہو کہ ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کی صورت میں سب کے درمیان عدل نہیں کرسکو گے تو صرف ایک سے شادی کرو۔اسی سے یہ معلوم ہوا کہ اگرکوئی چار میں عدل نہیں کرسکتا لیکن تین میں کرسکتا ہے تو تین شادیاں کرسکتا ہے اور تین میں عدل نہیں کرسکتا لیکن دو میں کرسکتا ہے تو دو کی اجازت ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ بیویوں کے درمیان عدل کرنا فرض ہے، اس میں نئی، پرانی، کنواری یا دوسرے کی مُطَلَّقہ، بیوہ سب برابر ہیں۔ یہ عدل لباس میں ، کھانے پینے میں ، رہنے کی جگہ میں اوررات کوساتھ رہنے میں لازم ہے۔ ان امور میں سب کے ساتھ یکساں سلوک ہو۔
(صراط الجنان فی تفسیر القرآن، پارہ 2،آیت نمبر 3، المدینہ العلمیۃ )

“سنن ابی داود” میں ہے:

“عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: “من كانت له امرأتان، فمال إلى أحدهما جاء يوم القيامة وشقه مائل”
ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ کسی ایک کی جانب جھک جائے تو قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کی ایک جانب فالج زدہ ہوگی.

(سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 2133)

کتبہ: سگ عطار محمد عمر رضا عطاری بن محمد رمضان قادری

اپنا تبصرہ بھیجیں