بدمذہب کا اپنی بدمذہبی چھپا کر سنی عورت سے نکاح کرنا

بدمذہب کا اپنی بدمذہبی چھپا کر سنی عورت سے نکاح کرنا

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ شرعا بدعقیدہ سے نکاح کرنا ناجائز ہے، اب اگر ایک گمراہ شخص خود کو سنی کہہ کر اہل سنت کی کسی لڑکی سے نکاح کرلے اور نکاح کے بعد پتہ چلے کہ اس نے جھوٹ بولا تھا، یہ سنی نہیں، تو نکاح کی شرعی حیثیت کیا ہوگی؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

صورت مسئولہ کا حکم یہ کہ یقیناً قرآن و سنت کی روشنی میں یہ ثابت ہے کہ بدمذہبوں، گمراہوں سے میل جول کسی قسم کا رشتہ ناتہ حتی کہ شادی بیاہ ناجائز و حرام ہے۔ لہذا اگر دھوکہ سے کسی نے خود کو سنی صحیح العقیدہ کہہ کر سنیہ عورت سے نکاح کیا، تو یہ نکاح باطل ہے۔ منعقد ہی نہیں ہو گا۔ کیونکہ بدعقیدہ و بدمذہب سنیہ عورت کا کفو نہیں۔ لہذا مفتی بہ قول کے مطابق نکاح باطل ہونے کے سبب عورت فوراً بلاتاخیر اس سے الگ ہو جائے۔

در مختار میں ہے

”و یفتی فی غیر الکفء لعدم جوازہ أصلا و ھو المختار للفتوی لفساد الزمان“

غیر کفو میں نکاح کے اصلاً عدم جواز کا فتویٰ دیا جائے گا۔ زمانہ کی خرابی کی وجہ سے۔ فتویٰ کے لئے یہی مختار ہے۔(درمختار مع ردالمختار،کتاب النکاح ،باب الولی،3/ 56،دارالفکر بیروت)

فتاوی خیریہ میں ہے:

”سئل فی بکر بالغۃ زوجھا اخوھا من غیر کفو باذنھا اجاب تزویجہ لھا باذنھا کتزوجھا بنفسھا وھی مسئلۃ من نکحت غیر کفو بلارضا اولیائھا افتی کثیر بعدم انعقادہ اصلا وھی روایۃ الحسن عن ابی حنیفۃ ففی المعراج معزیا الی قاضی خاں وغیرہ والمختار للفتوی فی زماننا روایۃ الحسن اھ ملخصا“

باکرہ بالغہ کا اس کے بھائی نے غیر کفو میں نکاح کردیا جبکہ لڑکی نے اجازت دی ہو، سے متعلق سوال کے جواب میں فرمایا کہ لڑکی کی اجازت سے نکاح ایسے ہے جیسے لڑکی نے خود نکاح کیا ہو، یہ مسئلہ لڑکی کا خود غیر کفو میں اپنے اولیاء کی رضا کے بغیر نکاح کرنے کا ہے ، بہت فقہاء نے اس نکاح کے اصلا منعقد نہ ہونے پر فتوی دیا ہے، اور یہ امام حسن کی امام ابوحنیفہ سے روایت ہے، تو معراج میں اس کو قاضی خاں وغیرہ کی طرف سے منسوب کرکے کہا کہ ہمارے زمانے میں فتوی کے لئے یہی مختار ہے جو امام حسن نے روایت کی ہے اھ ملخصا۔(فتاوی خیریہ باب الاولیاء والاکفاء 1 /25، دارالمعرفۃ بیروت)

سیدی اعلی حضرت علیہ رحمۃ رب العزت فرماتے ہیں:

”جبکہ ہندہ عاقلہ بالغہ تھی او رنکاح اس کے اذن سے واقع ہوا تو حقیقۃً وہ ہندہ کا خود اپنا نکاح کرنا تھا کہ بالغہ پر سے ولایت منقطع اور فعل وکیل فعل مؤکل ہے خصوصا نکاح میں کہ یہاں تووکیل سفیر ومعبر محض ہوتا ہے اور تقریر سوال سے ظاہر ہے کہ زید ولی ہندہ کو اس وقت تک عمرو کا رافضی ہونا معلوم نہ تھا عمرو نے براہ فریب اسے مغالطہ دیااور وہ اسے سنی سمجھ کر نکاح پر راضی ہوا تو حاصل ا س صورت کا یہ ٹھہرا کہ عورت نے اپنا نکاح غیر کفو سے کیا اور ولی کو پیش از نکاح اس کے غیر کفو ورافضی ہونے پر اطلاع نہ تھی، ایسی صورت میں ظاہر الروایۃ تو یہ ہے کہ عورت اور اس کے ولی دونوں کو اس نکاح کے فسخ کرانے کا اختیا رہے،

۔۔۔مگر روایت صحیحہ ومفتی بہاپر نکاح اصلا نہ ہوا،۔۔۔

پس صورت مستفسرہ میں حکم یہ ہے کہ عمرو وہندہ کا نکاح اصلا منعقد نہ ہوا، نہ وہ اس کا شوہر ہے نہ یہ اس کی زوجہ، نہ اسے اس کے یہاں بھیجنا یا جانا روا، نہ اس کو اس پر کسی قسم کا اختیار یا دعوی، واللہ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔“(فتاوی رضویہ،ج11،ص698، رضافاؤنڈیشن لاہور)

بہار شریعت میں ہے:

”فاسق شخص متقی کی لڑکی کا کفو نہیں اگرچہ وہ لڑکی خود متقیہ نہ ہو۔ اور ظاہر کہ فسق اعتقادی (عقیدے کابرا ہونا) فسقِ عملی (عمل کے لحاظ سے برا ہونا)سے بدر جہا بدتر، لہٰذا سُنی عورت کا کفو وہ بد مذہب نہیں ہوسکتا۔“(بہار شریعت،حصہ7،نکاح کا بیان، کفو کا بیان، مسئلہ:7،مکتبۃ المدینہ کراچی)

واللّٰہ تعالٰی اعلم ورسولہ اعلم باالصواب

صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم

ابو المصطفٰی محمد شاہد حمید قادری

24ربیع الاول 1445ھ

11اکتوبر 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں