کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ میں ایک شپ پہ کام کرتا ہوں ہو اور اکثر ہم ناروے میں جاتے رہتے ہیں تو ناروے میں کچھ ایسی جگہیں ہیں جہاں سورج غروب نہیں ہوتا تو وہاں روزے کا کیا حکم ہوگا روزہ کیسے رکھا جائے گا اور نمازوں کا کیا حکم ہوگا
بسم الله الرحمن الرحيم
الجواب بعون الملك الوهاب اللهم هداية الحق والصواب
جن علاقوں میں عشاء کا وقت آنے سے پہلے ہی فجر طلوع ہوجاتی ہے وہاں عشاء اور وتر کی قضا ہوگی سنتوں اور نفلوں کی قضا نہیں ہوگی اور جن علاقوں میں سورج کے غروب ہوتے ہی فجر طلوع ہوجاتی ہے وہاں کے رہنے والے اگر چوبیس گھنٹے کا روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے یا طاقت تو رکھتے ہیں لیکن نہایت کمزوری یا ہلاکت کا خوف ہے تو وہ مریض کے حکم میں ہیں وہ اور دنوں میں ان روزوں کی قضا کریں گے
ردالمحتار میں ہے: ولو كانوا في بلدة يطلع فيها الفجر قبل غيبوبة الشفق لا يجب عليهم صلاة العشاء لعدم السبب والذي يظهر من عبارة الفيض أن المراد أنه يجب قضاء العشاء،
ترجمہ۔اگر ایسے شہر میں ہے کہ جہاں شفق کے غائب ہونے سے پہلے ہی فجر کی طلوع ہوجاتی ہے ان پر سبب کے نہ پائے جانے کی وجہ سے عشاء واجب نہیں ہوگی اور فیض القدیر کی عبارت سے یہی ظاہر ہے کہ عشاء کی نماز کی قضا واجب ہوگی (ردالمحتار جلد 2 صفحہ 24 دارالمعرفۃ بیروت)
بہار شریعت میں ہے:
جن شہروں میں عشا کا وقت ہی نہ آئے کہ شفق ڈوبتے ہی یا ڈوبنے سے پہلے فجر طلوع کر آئے (جیسے بلغار و لندن کہ ان جگہوں میں ہر سال چالیس راتیں ایسی ہوتی ہیں کہ عشا کا وقت آتا ہی نہیں اور بعض دنوں میں سیکنڈوں اور منٹوں کے لیے ہوتا ہے) تو وہاں والوں کو چاہیے کہ ان دنوں کی عشا و وتر کی قضا پڑھیں (بہار شریعت جلد 1 حصہ 3 صفحہ 451 مکتبۃ المدینہ)
قرآن پاک میں ہے
فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَؕ-
ترجمۂ کنز العرفان: گنتی کے چند دن ہیں تو تم میں جو کوئی بیمار ہو یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں رکھے (سورۃ البقرہ آیت 184)
در مختار مع ردالمحتار میں ہے
العوارض المبيحة لعدم الصوم…. وخوف هلاك أو نقصان عقل ولو بعطش أو جوع شديد
ترجمہ۔روزے کو چھوڑنے کے اعذار میں سے ہلاکت کا خوف اور عقل میں کمی واقع ہونا بھی ہے اگرچہ یہ بات پیاس اور بھوک کی شدت سے پیداہو (درمختار جلد 2 صفحہ 421 دارالفکر بیروت)
فتاوی یورپ میں ہے:
جن ملکوں میں سورج ڈوبتے ہی صبح صادق طلوع ہوجاتی ہے وہاں کے مسلم حضرات روزہ رکھنے کے معاملہ میں مریض کے حکم میں ہیں کہ شرعا خون ہلاکت بھی مریض کی طرح افطار ہے
لہذا وہاں کے باشندے اگر روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے ہوں یا طاقت تو رکھتے ہیں لیکن نہایت کمزوری واقع ہونے یا ہلاکت کا خوف ہے تو وہ ان دنوں کی فضا معتدل ایام میں کریں۔ (فتاوی یورپ صفحہ 313 شبیر برادرز)
والله اعلم ورسوله عزوجل و صلى الله عليه وسلم
كتبه: ابوحامد محمد نثار عطاری
6 شعبان المعظم 1443ھ بمطابق 10 مارچ 2022ء
نظر ثانی۔ابواحمد مفتی محمد انس رضا عطاری