مفتی صاحب کی بارگاہ میں یہ سوال ہے کہ رمضان کے روزے میں کسی نے مشت زنی کی اور یہ کافی بار کیا کیا اس سے کفارہ لازم ہو گا؟؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ
اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
1- مشت زنی ناجائز و حرام ہے حدیث مبارکہ میں ایسے شخص پر لعنت کی گئی ہے اور رمضان المبارک میں بحالت روزہ یہ فعل بد مزید حرام ہے لہذا ایسے گندے ناپاک فعل سے توبہ و اجتناب ضروری ہے، البتہ اگر کسی نے معاذ اللہ رمضان کے روزے میں یہ حرام کام کیا اور انزال ہو گیا تو روزہ ٹوٹ جائے گا ورنہ نہیں اور پھر اس ایک روزے کی قضاء لازم ہو گی کفارہ نہیں،
اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں : یہ فعل ناپاک حرام و ناجائز ہے….حدیث شریف میں ہے ’’ ناکح الید ملعون‘‘ جلق لگانے والے (مشت زنی کرنے والے ) پراللہ تعالی کی لعنت ہے
(فتاوی رضویہ، ج22 ،ص202 ،رضا فاؤنڈیشن لاہور )
درمختار مع رد المحتار میں ہے:”استمنی بکفہ او بمباشرۃ فاحشۃ ولو بین المرأتین (فانزل) قید لکل۔۔۔قضی فی الصور کلھا (فقط)“ ترجمہ: مشت زنی اور مباشرتِ فاحشہ اگرچہ دوعورتوں کے درمیان ہو اور انزال ہوجائے،یہ انزال کی قید سب کے ساتھ ہے،ان سب صورتوں میں صرف قضا ہوگی۔ (درمختارمع ردالمحتار ،ج3،ص379 ، دارالکتب العلمیہ،بیروت)
در مختار مع رد المحتار میں ایک اور مقام پر ہے “وكذا الاستمناء بالكف أي في كونه لا يفسد لكن هذا إذا لم ينزل أما إذا أنزل فعليه القضاء ” ترجمہ : اور ایسے ہی ہاتھ سے منی نکالنے میں یعنی مشت زنی کرنے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا لیکن یہ فاسد نہ ہونا اس وقت ہے جب إنزال نہ ہو، بہرحال جب إنزال ہو جائے تو اس پر اس روزے کی قضاء لازم ہے. (در مختار و رد المحتار، کتاب الصوم ،باب ما یفسد الصوم وما لا یفسد،2/399)
بہار شریعت میں ہے “غیر سبیلین میں جماع کیا تو جب تک انزال نہ ہو روزہ نہ ٹوٹے گا۔ یوہیں ہاتھ سے منی نکالنے میں اگرچہ یہ سخت حرام ہے کہ حدیث میں اسے ملعون فرمایا۔ (بہارشریعت ،جلد 1 ، حصہ 5 ، ص 989-990 ، مکتبۃ المدینہ ،کراچی)
بہار شریعت میں مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمتہ مختلف اُن صورتوں کا بیان کرتے ہوئے جن میں صرف قضاء ہے فرماتے ہیں : ….. یا ہاتھ سے منی نکالی یا مباشرت فاحشہ سے انزال ہوگیا……..ان سب صورتوں میں صرف قضا لازم ہے، کفارہ نہیں. (بہارشریعت ،جلد 1 ، حصہ 5 ، ص 995 ، مکتبۃ المدینہ ،کراچی)
2- لیکن قضاء میں شرط یہ ہے کہ معصیت کے قصد سے ایک دفعہ سے زیادہ نہ کیا ہو اور اگر معصیت کی نیت یسے ایک مرتبہ سے زیادہ کیا تو بطور سزا کفارہ بھی لازم آئے گا، اور معصیت کی نیت سے مراد روزہ توڑنے کی نیت ہے۔
لہذا پوچھی گئی صورت میں کئی مرتبہ ایسا فعلِ بد کرنے والے شخص نے جتنے روزوں میں مشت زنی کی اور اسے انزال ہوا ، اتنے روزوں کی قضا کرنا اس پر شرعا لازم ہے اور اگر اس نے ایسا بطور معصیت یعنی روزہ توڑنے کے قصد سے کیا ہے تو اس شخص پر کفارہ بھی ہے
در مختار میں ہے “واعلم أن كل ما انتفى فيه الكفارة محله ما إذا لم يقع منه ذلك مرة بعد أخرى لاجل قصد المعصية، فإن فعله وجبت زجرا له” ترجمہ : جان لو کہ وہ تمام صورتیں جن میں کفارہ نہیں ان کا محل تب ہے جب یہ روزہ توڑنے والا فعل بقصد معصیت ایک مرتبہ سے زائد نہ ہو، اگر اس نے ایسا کیا (یعنی ایک سے زائد بار بطور معصیت کیا) تو اس پر زجرا کفارہ واجب ہو گا.
رد المحتار میں” مرة بعد أخرى ” کے تحت علامہ شامی فرماتے ہیں “ظاهره أنه بالمرة الثانية تجب عليه الكفارة ولو حصل فاصل بایام ،وانہ اذالم یقصد المعصیۃ وھی الافطار لاتجب “یعنی :اس کا ظاہر یہ ہے کہ دوسری مرتبہ کرتے ہی کفارہ لازم ہوجائے گا اگرچہ بیچ میں کئی دنوں کا فاصلہ ہوجائے ، اور اگر معصیت کا قصد نہیں کیا اور وہ معصیت روزہ توڑنا ہے تو کفارہ واجب نہیں ہوگا۔ (در مختار و رد المحتار، کتاب الصوم ،باب ما یفسد الصوم وما لا یفسد ،ج3 ، ص382-383 ، دارالکتب العلمیہ، بیروت)
بہار شریعت میں ہے. “جن صورتوں میں روزہ توڑنے پرکفّارہ لازم نہیں ان میں شرط ہے ، کہ ایک ہی بار ایسا ہوا ہو اور معصیت کا قصد نہ کیا ہو، ورنہ اُن میں کفّارہ دینا ہوگا”
(بہارشریعت ،جلد 1 ، حصہ 5 ، ص 992 ، مکتبۃ المدینہ ،کراچی)
معصیت سے مراد یہاں پر روزہ توڑنے کا قصد ہے چنانچہ درمختار کی عبارت ”لاجل قصد المعصیۃ“ کے تحت علامہ سید احمد طحطاوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ” وھی الافطار ومفھومہ انہ اذا لم یقصد المعصیہ لایلزمہ التکفیر“ یعنی : معصیت کے قصد سے مراد روزہ توڑنا ہے، اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگرمعصیت (یعنی روزہ توڑنے) کا قصد نہ کیا ہو تواس پرکفارہ دینالازم نہیں.
(حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار،کتاب الصوم ،جلد1،صفحہ455،مطبوعہ کوئٹہ)
(والله تعالى اعلم بالصواب)
کتبہ : ابو الحسن حافظ محمد حق نواز مدنی
ابو احمد مفتی انس رضا قادری دامت برکاتہم العالیہ
( مورخہ 30 مارچ 2022 بمطابق 26 شعبان المعظم1443ھ بروز بدھ )