خدمت کو حق مہر مقرر کرنا

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ سورۃ القصص میں حضرت شعیب علیہ السلام نے 8 سال ( ٹوٹل 10 سال اس میں سے 2 سال optional ) حضرت موسی علیہ السلام سے بکریاں چرانے کو اپنی بیٹی کے نکاح کے لیے مقرر فرمایا میں نے سنا ہے پہلے شریعت کے احکامات بھی Follow کرنے ہوتے ہیں unless اس میں تبدیلی ہوگئی ہو.

سوال:

1-کیا حق مہر مال (ہر طرح کا مال) کی بجائے صرف خدمات سے ہوجاتا ہے

2-کیا نکاح کے لیے شرائط رکھی جاسکتی ہیں۔

3-کیا حق مہر کے بغیر نکاح ہوجاتا ہے.

4-حق مہر کی کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ مقدار کتنی ہے

بسم الله الرحمن الرحيم

الجواب بعون الملك الوهاب اللهم هداية الحق والصواب

1-شریعت اسلامیہ میں مہر کے لیے مال متقوم(وہ مال جو جمع کیا جا سکتا ہو اور شرعا اس سے نفع اٹھانا مباح ہو) کا ہونا ضروری ہے خدمت وغیرہ مہر نہیں ہوسکتی اس صورت میں مہر مثل واجب ہوگا اور سابقہ شریعت کا وہ حکم ہم پر لازم ہوتا ہے جس کے فسخ یا منسوخ ہونے پر کوئی دلیل قائم نہ ہو لہذا سورۃ القصص کی اس مذکورہ آیت میں حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی خدمت کی شرط لگائی تھی نہ کہ اپنی بیٹی کی خدمت کے لیے اور منفعت بھی حضرت شعیب علیہ السلام کو حاصل ہوئی نہ کہ ان کی بیٹی کو تو اس آیت مبارکہ میں خدمت کے عوض نکاح کرنے پر دلیل نہیں

2-نکاح میں جائز شرائط رکھی جا سکتی ہیں اور ان کی پاسداری کی جائے گی اور باطل شرائط کا لحاظ نہیں کیا جائے گا نکاح منعقد ہوجائے گا

3-اگر نکاح میں مہر کا ذکر ہی نہ کیا یا مہر کی نفی کر دی گئی اور مہر کے بغیر نکاح کیا تو نکاح ہو جائے گا اور اگر خلوت صحیحہ ہوگئی یا دونوں میں سے کوئی فوت ہوگیا اور نکاح کے بعد میاں بیوی میں کوئی مہر طے نہیں پایا تھا تو مہر مثل واجب ہے ۔

4-مہر کی کم از کم مقدار دس درہم ہے چاندی میں اس کا وزن دو تولے ساڑھے سات ماشے ہے یا اس کی جو قیمت بنتی ہو وہ مہر کی کم از کم مقدار ہے زیادہ کی کوئی حد نہیں باہمی رضا مندی سے جتنا چاہے مقرر کیا جاسکتا ہے لیکن یہ خیال رکھیں کہ مہر اتنا مقرر کریں جتنا دے سکتے ہوں ۔

قرآن پاک میں ہے

اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ مُّحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَؕ

 ترجمۂ کنز العرفان

تم انہیں اپنے مالوں کے ذریعے نکاح کرنے کو تلاش کرونہ کہ زنا کے لئے (سورۃالنساء آیت 24)

فتاوی ھندیہ میں ہے المهر إنما يصح بكل ما هو مال متقوم

ترجمہ۔مہر کے صحیح ہونے کے لئے مال متقوم ہونا ضروری ہے

(فتاوی ھندیہ جلد 1 صفحہ 302 دارالفکر بیروت)

ومقتضاه وجوب مهر المثل في خدمة وليها وعدم لزوم الخدمة، وكذا في مثل قصة شعيب عليه السلام۔۔۔۔۔ فإنه زوج موسى عليهما السلام بنته على أن يرعى له غنمه ثماني سنين، وقد قصه الله تعالى علينا بلا إنكار، فكان شرعا لنا وقد استدل بهذه القصة على ترجيح ما مر من رواية الجواز في رعي غنمها ورده في الفتح بأنه إنما يلزم لو كانت الغنم ملك البنت دون شعيب، وهو منتف

ترجمہ۔اس کا مقتضی(جب غیر مال کو مہر بنایا گیا ہو) تو مہر مثل واجب ہوگا خدمت لازم نہیں ہوگی اسی طرح حضرت شعیب علیہ السلام کے واقعہ میں ہے اس لیے کہ جب حضرت شعیب علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا آٹھ سال بکریاں چرانے پر اپنی بیٹی کا نکاح کیا تو اس واقعہ کو اللہ عزوجل نے بغیر رد کے بیان فرمایا یہ ہماری شریعت میں بھی مشروع ہوگا بعض نے اس واقعہ کے ذریعہ سے مہر کے طور پر بکریاں چرانے کے جواز کا استدلال کیا ہے لیکن فتح القدیر میں اس بات کو رد کیا گیا ہے کہ یہ مہر کے طور پر بکریاں چرانا اس وقت جائز ہے کہ جب وہ حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹی کی ملکیت میں ہوتیں جبکہ بکریاں ان کی بیٹی کی ملکیت میں نہیں تھیں۔ (ردالمحتار جلد 4 صفحہ 230 دارالمعرفہ بیروت)

 خلاصۃ الفتاوی میں ہے “وعقد لایتعلق بالجائز من الشرط والفاسد من الشرط لایبطلہ کالنکاح “

ترجمہ۔وہ عقد کہ اس میں کوئی شرط خواہ جائز ہو یا فاسد موثر نہ ہو،جیسے نکاح (خلاصۃ الفتاوٰی الفصل الخامس جلد 2 صفحہ 349 مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ)

فتاوی رضویہ میں ہے “نکاح شروط فاسدہ سے باطل نہیں ہوتابلکہ وہ خود شرطیں ہی باطل ہوجاتی ہیں، اگر اس شرط پر نکاح کیا جائے کہ مہر کچھ نہ ہوگا جب بھی مہرلازم شرعاً ہوگا مہر مثل دینا آئے گا” (فتاوی رضویہ جلد 11 صفحہ 298 رضا فاؤنڈیشن)

وكذا يجب) مهر المثل (فيما إذا لم يسم) مهرا أو نفى إن وطئ) الزوج (أو مات عنها إذا لم يتراضيا على شيء) يصلح مهرا (وإلا فذلك) الشيء

ترجمہ۔ نکاح میں مہر کا ذکر ہی نہ ہوا یا مہر کی نفی کردی اگر شوہر نے وطی کرلی یادونوں سے کوئی فوت ہوگیا تو مہر مثل واجب ہے بشرطیکہ بعد عقد آپس میں کوئی مہر طے نہ پاگیا ہو اور اگر طے ہوچکا تو وہی طے شدہ ہے (درمختار جلد 4 صفحہ 232 دارالمعرفۃ بیروت)

بہارشریعت میں ہے “نکاح میں مہر کا ذکر ہی نہ ہوا یا مہر کی نفی کر دی کہ بلا مہر نکاح کیا تو نکاح ہو جائے گا”  (بہار شریعت جلد 2 صفحہ 66 مکتبۃ المدینہ)

حدیث شریف میں ہے : ’’ لا مھر لاقل من عشرۃ دراھم‘‘

مہر دس درہم سے کم مہر نہیں۔‘‘ (السنن الکبریٰ للبیہقي جلد 7 صفحہ 240)

اور سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ارشاد فرماتے ہیں : ’’مہر شرعی کی کوئی تعداد مقرر نہیں ،صرف کمی کی طرف حد متعین ہے کہ دس درہم یعنی تقریباً دو روپے تیرہ آنے سے کم نہ ہو اور زیادتی کی کوئی حد نہیں ،جس قدر باندھا جائے لازم آئے گا۔ ‘‘  [فتاوی رضویہ جلد12ص165 مطبوعہ رضافاؤنڈیشن لاہور]

اور مزید ایک مقام پر سیدی اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ الرحمن ارشاد فرماتے ہیں : ’’کم سے کم مہر دس ہی درہم ہے یعنی دو تولے ساڑھے سات ماشے چاندی ۔‘‘

[فتاوی رضویہ جلد12ص162مطبوعہ رضافاؤنڈیشن لاہور]

والله اعلم ورسوله عزوجل و صلى الله عليه وسلم

كتبه: محمد نثار عطاری

7 رجب المرجب 1443ھ بمطابق 9 فروری 2022ء

 نظر ثانی۔ابواحمد مفتی محمد انس رضا عطاری

اپنا تبصرہ بھیجیں