کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ اگر لحاف وغیرہ پر منی لگ کر خشک ہوگئی ہو اور یہ گمان ہو کہ منی لحاف کے اندر روئی تک بھی پہنچ گئی ہے تو کیا روئی کو بھی اس طرح کھرچ کر پاک کیا جا سکتا ہے
بسم الله الرحمن الرحيم
الجواب بعون الملك الوهاب اللهم هداية الحق والصواب
اگر منی لحاف کے اندر سے روئی تک پہنچ گئی ہے تو کھرچ دینے سے روئی پاک ہوجائے گی اور اگر کھرچنا ممکن نہ ہو تو ناپاک روئی اتار کر الگ کردینے سے لحاف پاک ہوجائے گا اور اگر ناپاک حصہ معلوم نہ ہوتو پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ لحاف سمیت روئی کو بہتے پانی میں چھوڑ دیا جاۓ کہ پانی نجاست کو بہالے جائے یا ناپاک حصے پر اتنا پانی بہایا جائے کہ وہ چاروں طرف سے بھیگ جاۓ اور پاک کرنے والے کا خیال جم جاۓ کہ پانی نجاست کو بہا کر لے گیا ہے اب یہ لحاف روئی سمیت پاک ہوجائے گا یا ایک بار اسے دھو کر لٹکا دیں کہ پانی کا آخری قطرہ ٹپک جائے پھر دوسری بار بھی اسی طرح دھو کر لٹکا دیں کہ پانی کا آخری قطرہ ٹپک جاۓ ، تیسری بار بھی اسی طرح کریں کہ آخری قطرہ ٹپک جاۓ اب یہ پاک ہو جائے گا یا روئی دھننے(مخصوص طریقے سے روئی کے پرزے پرزے اڑانے) سے پاک ہوجائے گی جبکہ جتنی نجس تھی اتنی یا اس سے زیادہ دھننے میں اُڑ گئی ہو ورنہ پاک نہیں ہوگی۔اس کے پاک کرنے کا وہی طریقہ ہے جو اوپر مذکور ہوا کہ اسے دھویا جائے۔
در مختار میں ہے:
“یطھر محل غیر مرئیۃ بغلبۃ ظن غاسل طھارۃ محلھا بلاعدد بہ یفتی وقدر ذلک لموسوس بغسل وعصر ثلثا فیما ینعصر وتثلیث جفاف ای انقطاع تقاطر فی غیرہ ممایتشرب النجاسۃ وھذا کلہ اذاغسل فی اجانۃ اما لوغسل فی غدیر اوصب علیہ ماء کثیرا وجری علیہ الماء طھر مطلقا بلاشرط عصر وتجفیف وتکرار غمس ھو المختار”
(نجاست) نہ دکھائی دینے والی جگہ دھونے والے کے غالب گمان کے ساتھ کہ اب جگہ پاک ہوگئی کسی خاص تعداد کے بغیر بھی پاک ہوجاتی ہے اور اسی پر فتوی ہے اگر وسوسہ کرنے والا ہو تو تین بار دھوکر ہر بار نچوڑے جبکہ وہ ایسی چیز ہو جو نچوڑی جاسکتی ہے اگر نچوڑی نہ جاسکتی ہو تین بار خشک کرلیا جائے یعنی جو نجاست اس کے اندر جذب ہوئی اس کے قطرے ختم ہوجائیں یہ تمام باتیں اس صورت میں ہیں جب ٹب وغیرہ میں دھوئے اگر بڑے تالاب میں دھوئے یا اس پر بہت سا پانی ڈالے یا اس پر پانی جاری کرے تو نچوڑنے یا خشک کرنے اور بار بار غوطہ دینے کی شرط کے بغیر مطلقا پاک ہوجائے گی یہی مختار ہے
(درمختار باب الانجاس جلد 1 صفحہ 593 دارالمعرفۃ بیروت )
فتاوی رضویہ میں ہے:”جو کپڑے نچوڑنے میں آسکیں جیسے ہلکی توشک رضائی(لحاف) وغیرہ وہ یوں ہی دھونے سے پاک ہوجائیں گے ورنہ بہتے دریا میں رکھیں یا ان پر پانی بہائیں یہاں تک کہ نجاست باقی نہ رہنے پر ظن حاصل ہو یا تین بار دھوئیں اور ہر بار اتنا وقفہ کریں کہ پہلا پانی نکل جائے” (فتاوی رضویہ جلد 4 صفحہ 557 رضا فاؤنڈیشن)
ردالمحتار میں ہے:”وكذا الندف، ومن عده شرط كون النجس مقدارا قليلا يذهب بالندف وإلا فلا يطهر”
ترجمہ۔دھننے سے روئی کے پاک ہونے میں شرط یہ ہے کہ روئی کا جتنا حصہ ناپاک ہے دھننے میں وہ اڑ جائے اگر اتنا حصہ نہیں اڑتا تو روئی پاک نہیں ہوگی. (ردالمحتار جلد 1 صفحہ 314 دارالفکر بیروت)
بہار شریعت میں ہے: روئی کا اگر اتنا حصہ نجس ہے جس قدر دُھننے سے اُڑ جانے کا گمانِ صحیح ہو تو دُھننے سے پاک ہو جائے گی ورنہ بغیر دھوئے پاک نہ ہوگی، ہاں اگر معلوم نہ ہو کہ کتنی نجس ہے تو بھی دھننے سے پاک ہو جائے گی۔ (بہار شریعت جلد 1 صفحہ 403 مکتبۃ المدینہ)
والله اعلم ورسوله عزوجل و صلى الله عليه وسلم
كتبه: محمد نثار عطاری
20 رجب المرجب 1443ھ بمطابق 22 فروری 2022ء
نظر ثانی۔ابواحمد مفتی محمد انس رضا عطاری