سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے کے بارے میں کہ جو عورت غیر مردوں کے ساتھ تعلقات رکھے اسے طلاق دے سکتے ہیں یا نہیں؟ اس کو چھوڑنے کا طریقہ بھی بتادیں۔
الجواب بعون الملك الوھاب اللھم ھدایة الحق و الصواب
جو عورت غیر مردوں سے ناجائز تعلقات رکھتی ہے اسے طلاق دینا جائز ہے کیونکہ یہ شوہر کے لئے اذیت کا باعث ہے۔طلاق کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ بیوی کو ان پاکی کے دنوں میں ایک طلاق رجعی دے جس میں اس کے ساتھ صحبت نہ کی ہو پھر اس کو چھوڑ دے یہاں تک کہ اس کی عدت پوری ہوجائے۔
درمختار میں ہے: “الاصح حظرہ الا لحاجۃ کریبةو کبر ” صحیح قول کے مطابق حاجت کے وقت طلاق دینا جائز ہے جیسے(فاحشہ ہونے کا) گمان ہو یا بہت بڑی عمر کی ہو، حاجت نہ ہو تو ممنوع۔
(درمختار مع رد المحتار،جلد 4،کتاب الطلاق،صفحہ 414،دار المعرفہ)
فتاوی رضویہ میں ہے:تیسرا قول یہ ہے کہ اگر شوہر کو طلاق کی حاجت ہے تو مباح ہے ورنہ ممنوع،یہی قول صحیح اور دلائل سے موید ہے،صاحب فتح القدیر نے اسی کو صحیح قرار دیا ہے اور علامہ شامی نے اس کا دفاع کیا ہے جس سے اس کی صحت مستفاد ہوتی ہے۔
(فتاوی رضویہ،جلد 12،صفحہ 322،رضا فاؤنڈیشن لاہور)
نفع المفتی و السائل میں ہے:” مقتضی غایة التقویٰ فهو أن یطلقها”ترجمہ: فاسقہ عورت کو طلاق دینا تقوی کے انتہائی درجے کا تقاضا ہے۔
(نفع المفتی والمسائل، صفحہ 446)
موسوعۃ فقھیۃ میں ہے:زوجہ کی بداخلاقی یا بد سلوکی سے نجات حاصل کرنے لئے یا اس وجہ سے کہ وہ اس کو پسند نہیں کرتا،اگر طلاق کی ضرورت ہو تو طلاق مباح ہوگی۔
(موسوعۃ فقھیہ کویتیہ مترجم،جلد 29،صفحہ 39)
فتاوی شامی میں در مختار کے اس قول “لو مؤذیة”(اگر بیوی ایذا دیتی ہو تو طلاق دینا جائز ہے) کے تحت فرماتے ہیں:”اطلقه فشمل المؤذیة له او لغیرہ بقولھا او فعلھا”ترجمہ: مصنف نے اسے مطلق رکھا ہے تو موذی ہونا شوہر اور شوہر کے علاوہ سب کو شامل ہے چاہے عورت کے فعل سے ایذا ہو یا فعل سے۔
(الرد المحتار،جلد4،صفحہ 416،دار المعرفة)
مفتی قاسم عطاری صاحب لکھتے ہیں:عورت بے حیا و زانیہ ہے تو ایسی صورت میں شوہر کے لئے طلاق دینا جائز ہے۔
(طلاق کے آسان مسائل،صفحہ 2،مکتبہ المدینہ)
طلاق کا طریقہ عامہ کتب فقہ میں موجود ہے ،کتاب الاثار میں امام محمد لکھتے ہیں:”اخبرنا ابو حنیفہ،عن حماد،عن ابراہیم قال:اذا اراد الرجل ان یطلق امراتہ للسنۃ ترکھا حتی تحیض و تطھر من حیضتھا ثم یطلقھا (تطلیقہ) من غیر جماع ثم یترکھا حتی تنقضی عدتھا”ترجمہ:امام محمد فرماتے ہیں ہمیں امام اعظم نے خبر دی وہ حماد سے وہ ابراہیم سے روایت کرتے ہیں،فرمایا:جب شوہر اپنی بیوی کو سنت طلاق دینے کا ارادہ کرے تو اسے چھوڑ دے یہاں تک کہ وہ حیض سے پاک ہوجائے اور اس میں بغیر جماع کیے اسے ایک طلاق دے پھر چھوڑ دے یہاں تک کہ اس کی عدت ختم ہوجائے۔
(کتاب الاثار،کتاب الطلاق،باب الطلاق و العدۃ،جلد 2،صفحہ 485،دار السلام)
بہار شریعت میں ہے:جس طہر میں وطی نہ کی ہو اُس میں ایک طلاق رجعی دے اور چھوڑے رہے یہاں تک کہ عدّت گزر جائے، یہ احسن ہے۔
(بہار شریعت،جلد2،صفحہ 110مکتبۃ المدینہ)
مفتی قاسم صاحب لکھتے ہیں:طلاق دینے کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ بیوی کو ان پاکی کے دنوں میں جن میں عورت سے جماع نہ کیا ہو ایک طلاق دی جائے او ر چھوڑ دیا جائے حتی کہ عدت کے دن گزر جائیں۔
(طلاق کے آسان مسائل،صفحہ 8،مکتبہ المدینہ)
واللہ اعلم عزوجل و رسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کتبہ : ابو بنتین محمد فراز عطاری مدنی بن محمد اسماعیل
ابو احمد مفتی انس رضا قادری دامت برکاتہم العالیہ
( مورخہ 8 جون 2021 بمطابق 26 شوال المبارک 1442ھ بروز منگل )