کیا طلاق میں گواہ بنانا ضروری ہے کہ بغیر گواہ کے بھی طلاق ہوجاتی ہے؟

استفتاء:  کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسلہ کے بارے میں کہ کیا طلاق میں گواہ بنانا ضروری ہے کہ بغیر گواہ کے بھی طلاق ہوجاتی ہے؟

الجواب بعون الملک الوهاب اللهم هدایة الحق والصواب

نہ تو طلاق ميں گواہ بنانےكى شرط ہے اور نہ ہى گواہ بنانا واجب اور ضرورى،بلکہ مستحب ہے۔اس ليے جس شخص نے بھى طلاق كے الفاظ بولے اس كى طلاق واقع ہو جائيگى، چاہے بيوى پاس موجود نہ بھى ہو، يا پھر اس كے پاس كوئى اور شخص نہ بھى ہو اور وہ اكيلا ہى طلاق دے تو طلاق واقع ہو جائيگى.

اور اسى طرح اگر كسى شخص نے خط يا كاغذ ميں طلاق دينے كى نيت سے طلاق لكھى تو طلاق واقع ہو جائيگى۔

تفسیر قرطبی و خازن میں سورة طلاق کی آیت نمبر ٢ کے تحت ہے ۔۔عن عمران بن حصين أنه سئل عن رجل يطلق امرأته ثم يقع عليها ولم يشهد على طلاقها ولا على رجعتها فقال طلقت لغير سنة وراجعت لغير سنة أشهد على طلاقها وعلى رجعتها ولا تعد. أخرجه أبو داود وهذا الإشهاد مندوب إليه عند أبي حنيفة كما في قوله وأشهدوا إذا تبايعتم

حضرت عمران بن حصین سے ایسے مرد کے بارے میں سوال کیا گیا جس۔نے اپنی عورت کو طلاق دی پھر اس سے جماع کیا ۔طلاق پر گواہ بنائے نہ رجوع پر ۔؟فرمایا کہ اس نے طلاق و رجوع غیر سنت پر کیا طلاق و سنت ہر گواہ قائم کرتا۔ آئندہ ایسا نہ کرنا

اور امام اعظم علیہ رحمہ کے نزدیک گواہ قائم کرنا مستحب ہے۔

[الخازن، تفسير الخازن لباب التأويل في معاني التنزيل، ٣٠٧/٤]

    فتاوی رضویہ میں ہے:”شوہرِ اول طلاق دینے کامقر (اقرارکرتا) ہے ، مگرعذرصرف یہ کرتاہے کہ طلاق خفیہ دی ، چاراشخاص کے سامنے نہ دی،لہٰذااپنی جہالت سے طلاق نہ ہوناسمجھتاہے،اگرایساہے ، تواس کادعو ٰی غلط باطل ہے،طلاق بالکل تنہائی میں دے ، جب بھی ہوجاتی ہے۔“

(فتاوی رضویہ، جلد12،صفحہ366،رضافاؤنڈیشن، لاھور )

واللہ اعلم و رسولہ اعلم عزوجل صلی اللہ علیہ والہ وسلم

مجیب ۔؛ مولانا فرمان رضا مدنی

نظر ثانی۔: ابو احمد مولانا مفتی انس قادری مدنی