سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا حالت نشہ میں دی گئی طلاق واقع ہوجاتی ہے؟
الجواب بعون الملك الوھاب اللھم ھدایة الحق و الصواب
اگر کسی نے نشے میں طلاق دی تو واقع ہوجائے گی البتہ کسی کو زبردستی نشہ کروایا گیا ہو اور پھر اس نے طلاق دی تو صحیح یہ ہے کہ واقع نہیں ہوگی، یہاں زبردستی سے مراد اکراہ شرعی ہے یعنی کسی کو قتل کردینے یا عضو ضائع کردینے کی صحیح دھمکی دی اور گمان غالب ہے کہ جو کہ رہا ہے کر گزرے گا۔
مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت میں ہے:’’عن أبی لبید، أن عمر، أجاز طلاق السکران‘‘ترجمہ: حضرت ابو لبید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ بے شک حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نشے والے کی طلاق کو نافذ فرمایا۔
(الکتاب المصنف فی الاحادیث والآثار،کتاب الطلاق ،من اجاز طلاق السکران،جلد4،صفحہ76، مکتبۃ الرشد،الریاض)
مصنف عبدالرزاق میں ہے:’’عن عطاء قال یجوز طلاق السکران، إنہ لیس کالمریض المغلوب علی عقلہ‘‘ترجمہ: حضرت عطاء رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ نشے والے کی طلاق نافذہے۔ یہ اس مریض جیسا نہیں جس کی عقل مغلوب ہوجائے۔
(المصنف،کتاب الطلاق، باب طلاق السکران،جلد7،صفحہ82، المجلس العلمی،الہند)
الاختیار میں ہے: “طلاق السکران واقع” ترجمہ: نشے والے کی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔
(الاختیار لتعلیل المختار،جلد 3،صفحہ 124،دار الفکر)
اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے صاحب ھدایۃ لکھتے ہیں : “و لنا انہ زال بسبب ھو معصیۃ فجعل باقیا حکما زجرا لہ”ترجمہ:ہماری دلیل یہ ہے کہ شراب پینے کی وجہ سے جو عقل زائل ہوئی وہ ایک سبب کی وجہ سے ہوئی اور وہ سبب گناہ ہے تو حکم کو سزا کے طور پر باقی رکھا گیا۔
(ھدایۃ،جلد2،صفحہ 377)
درمختار میں ہے:”سکران ولو بنبیذ او حشیش او افیون او بنج زجرا بہ یفتی”ترجمہ: نشہ والے نے طلاق دی تو واقع ہو جائے گی چاہے شراب پینے سے ہو یا بنگ سے یا افیون سے گانجا سے یہ حکم سزا کے طور پر ہے اسی پر فتوی ہے۔
(درمختار، کتاب الطلاق،جلد 4،صفحہ 432،دار المعرفہ)
عالمگیری میں ہے: ” ولو اکرہ علی شرب الخمر او شرب لضرورۃ و سکر و طلق امراتہ اختلفوا و الصحیح انہ کما لا یلزمہ الحد لا یقع طلاقہ” ترجمہ: اگر شراب پینے پر مجبور کیا گیا یا ضرورت کی وجہ سے شراب پی(مثلا پیاس سے مر رہا تھا اور پانی نہ تھا) اور نشہ آگیا اور اپنی بیوی کو طلاق دی تو اس میں اختلاف ہے اور صحیح یہ ہے کہ جس طرح حد لازم نہیں ہوگی اسی طرح طلاق بھی واقع نہیں ہوگی۔
(عالمگیری،جلد 1،کتاب الطلاق،صفحہ 388،دار الکتب العلمیہ)
اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ مجبوری کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:” لوگ کسی کے اصرار کو بھی جبر کہتے ہیں، یہ جبر نہیں، اگر ایسے جبر سے نشہ کی چیز پی اور اس نشہ میں طلاق دی بلاشبہہ بالاتفاق ہوگئی، ہاں اگر جبر و اکراہ شرعی ہو۔ مثلا قتل یا قطع عضو کی دھمکی دے جس کے نفاذ پر یہ اسے قادر جانتا ہو، یا یوں کہ کسی نے ہاتھ پاؤں باندھ کر منہ چیر کر حلق میں شراب ڈال دی تو یہ صورت ضرور جبر کی ہے، اور تحقیق یہ ہےکہ اس نشہ میں اگر طلاق دے نہ پڑے گی۔
(فتاوی رضویہ،جلد 12،صفحہ 389،رضا فاؤنڈیشن لاہور)
کتبہ : ابو بنتین محمد فراز عطاری مدنی عفی عنہ بن محمد اسماعیل
ابو احمد مفتی انس رضا قادری دامت برکاتہم العالیہ
( مورخہ 26 مئی 2021 بمطابق 14 شوال 1442ھ بروز بدھ)