سوال : کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے میں کہ شوہر کے علاوہ کوئی دوسرا بیوی کو طلاق دے سکتا ہے؟
الجواب
شوہر کے علاوہ کسی اور کو طلاق دینے کا اختیار نہیں ہے لہذا اگر کوٸی دوسرا بیوی کو طلاق دے گا تو وہ شوہر کی اجازت پر موقوف ہوگا ، اگر شوہر نے اجازت دے دی تو طلاق واقع ہوجائے گی وگرنہ نہیں کیونکہ طلاق ایسی چیز ہے جس کے دیتے ہوئے مالک ہونا یا اضافت کا ہونا ضروری ہے لہذا ایسا ایسا شخص جو طلاق کا مالک نہ ہو اور وہ طلاق دے تو یہ ٖفضولی شخص کی طلاق کہلائے گی اور فضولی وہ ہوتا ہے جس کو کسی کام کے کرنے کی اجازت نہ دی جائے اور وہ کام کر دے اور فضولی شخص کے کیے ہوئے کام کا حکم یہ ہے کہ اگر اجازت مل جائے تو وہ نافذ ہوگا وگرنہ نہیں۔
کتاب البحرالرائق میں ہے کہ: فإن التعليق في غير الملك والمضاف إليه صحيح موقوف على إجازة الزوج،حتى لو قال أجنبي لزوجة إنسان: إن دخلت الدار فأنت طالق ،توقف على الإجازة، فإن أجازه لزم التعليق،فتطلق بالدخول بعد الإجازة ،لا قبلها.
ترجمہ کا خلاصہ : کسی دوسرے کی بیوی کو شوہر کی اجازت کے بغیر طلاق معلق دینے سے وہ طلاق شوہر کی اجازر پر موقوف ہوتی ہے جیسا کہ اگر کسی نے کسی اجنبی شخص کی بیوی سے کہا کہ اگر تو گھر میں داخل ہوئی تو تجھے طلاق ہے تو یہ شوہر کی اجازت پر موقوف ہوگی اگر شوہر نے اس کو جائز کر دیا تو گھر میں داخل ہونے کی صورت میں بیوی کو طلاق واقع ہوجائے گی۔
كتاب البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري – باب التعليق في الطلاق – جلد 4 صفحہ 6 المكتبة الشاملة
اسی طرح فتاوی رضویہ میں اعلی حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ: جبکہ فضولی کی طلاق خاوند کی اجازت پر موقوف ہوتی ہے
فتاوی رضویہ ،کتاب النکاح و الطلاق جلد 12 رضا فاؤیڈیشن
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل و ﷺ
کتبہ محمد وقاص عطاری
نظر ثانی ابو محمد مفتی انس رضا قادری حفظہ اللہ تعالی
28 محرم الحرام 1443 ہجری
07 ستمبر 2021