سوال : کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے میں کہ آج کل جو نکاح فارم پر تفویض طلاق دینے کو لکھ دیا جاتا ہے اس کی کیا حیثیت ہے کیا مطلقا یہ لکھ دینے سے کہ طلاق کا حق بیوی کا دے دیا ہے اس سے طلاق تفویض ہوجائے گی اگر ہوگی تو کب تک ہوگی؟
الجواب
اس سوال میں تیں چیزیں معلوم کی گئی ہیں
1) تفویض طلاق کی حیثیت
اس حوالے سے عرض ہے کہ طلاق دینے کا اصل اختیار شوہر کے ہاتھ میں ہوتا ہے
جیسا کہ پارہ 2 سورہ بقرہ کی آیت 237 میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
الَّذِي بِيَدِهِ عُقْدَةُ النِّكَاحِ.
وہ (شوہر) جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے۔
یعنی طلاق دینے کا اصل اختیار شوہر کے ہاتھ میں ہوتا ہے
لیکن وہ اپنا یہ اختیار کسی اور کو بھی سونپ سکتا ہے اور کسی اور کو طلاق اختیار دینے کی تیں صورتیں ہیں
1) تفویض کے ذریعے بیوی کو طلاق کا اختیار دینا
2) کسی کو وکیل بناکر اسے طلاق دینے کا اختیار دینا
3) تحریر یا قاصد کے ذریعے طلاق دینے کا اختیار دینا
حدیث کی کتاب مصنف ابن ابی شیبہ میں تفویض طلاق کے حوالے ہے کہ : عن ابی حلال قال سئلت عثمان ون رجل جعل امر امراتہ بیدھا ، قال الْقَضَاءُ مَا قَضَتْ
ترجمہ حضرت ابوالحلال کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمان g سے سوال کیا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کا معاملہ اسی کے سپرد کر دے تو کیا حکم ہے؟ انہوں نے فرمایا:جو فیصلہ وہ کرے وہی نافذ ہو گا۔ یعنی بیوی کو طلاق کا اختیار دینے سے بیوی کو طلاق دینے کا احتیار حاصل ہو جائے گا
(ابن أبي شيبة، المصنف،جلد 4 صفحہ86،)
اسی طرح کسی کو وکیل بناکر اسے طلاق دینے کا اختیار دینے کے حوالے سے حدیث کی کتاب مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے کہ: عَنِ الْحَسَنِ، فِي الرَّجُلِ يَجْعَلُ أَمْرَ امْرَأَتِهِ بِيَدِ رَجُلٍ، قَالَ: هُوَ كَمَا قَالَ. حضرت حسن فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کا معاملہ کسی دوسرے آدمی کے سپرد کر دے، پھر وہ دوسرا آدمی جو کرے وہی نافذ ہو گا۔
(ابن أبي شيبة، المصنف،جلد 4صفحہ 85، مكتبة الرشد)
اسی طرح تحریر یا قاصد کے ذریعے طلاق دینے کا اختیار دینے کے حوالے سے حدیث کتاب سنن نسائی میں ہے کہ: حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کے شوہر اُن کے پاس موجود نہیں تھے، انہوں نے وکیل کے ذریعہ سے طلاق دی ساتھ کچھ جو بھی بھیجے اور رسول اللہ ﷺ نے اس طلاق کو نافذ العمل قرار دے کر عدت پوری کرنے کا حکم فرمایا جیسا کہ حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
أَرْسَلَ إِلَيَّ زَوْجِي بِطَلَاقِي، فَشَدَدْتُ عَلَيَّ ثِيَابِي ثُمَّ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: كَمْ طَلَّقَكِ؟ فَقُلْتُ: ثَلَاثًا، قَالَ: لَيْسَ لَكِ نَفَقَةٌ، وَاعْتَدِّي فِي بَيْتِ ابْنِ عَمِّكِ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ.
مجھے میرے خاوند نے طلاق کہلا بھیجی، اور بعد ازاں میں نے اپنے کپڑے اوڑھ لیے، اور میں حضور نبی اکرم ﷺکی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی۔ نبی کریمﷺ نے دریافت فرمایا کہ آپ کو کتنی طلاقیں دی گئی ہیں۔ میں نے عرض کیا تین۔ آپ ﷺنے فرمایا: تجھے عدت بیٹھنے کے لیے تیرے خاوند کی طرف سے خرچہ نہ ملے گا اور آپ نے ارشاد فرمایا کہ آپ اپنے چچا کے بیٹے کے گھر میں ایام عدت پورے کریں یعنی ابن ام مکتوم کے پاس۔
النسائي جلد 6 صفحہ 150، كتاب الطلاق، باب إرسال الرجل إلى زوجته بالطلاق مكتب المطبوعات
اسی طرح درمختار میں ہے: مایوقعہ باذنہ وانواعہ ثلثۃ تفویض وتوکیل ورسالۃ
ترجمہ : خاوند کی اجازت سے دوسرا کوئی شخص طلاق واقع کرے تو اس کے لئے تین طریقے ہیں:(۱) تفویض، (۲) توکیل،اور (۳)خط یا قاصد
درمختار باب تفویض الطلاق جلد 1 صفحہ 224 مطبع مجتبائی دہلی
لہذا بیوی کو طلاق دینے کا اختیار دینا بلکل جائز ہے جس کو تفویض طلاق کہا جاتا ہے ۔
2) سوال میں دوسری بات یہ معلوم کی گئی ہے کہ کیا نکاح فارم پر مطلقا تفویض طلاق لکھ دینے سے کہ طلاق کا حق بیوی کو مل جائے گا یا نہیں؟
اس حوالے سے عرض ہے کہ آج کل جو نکاح فارم پر تفویض طلاق دینے کو لکھ دیا جاتا ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ ، اس میں یہ بھی شرط ہے کہ تفویضِ طلاق کرنے میں مرد و عورت دونوں میں سے ایک کے کلام میں لفظ نفس یا طلاق کا ذکر ہو
لہذا اس طرح چار صورتیں بنتی ہیں
1) تفویض نکاح کو نکاح فارم پر نکاح ہونے سے پہلے لکھا جائے, اس صورت میں تفویض طلاق صحیح نہیں ہے اور اس سے بیوی کو طلاق کا اختیار حاصل نہیں ہوگا کیونکہ تفویض طلاق کے لیے تفویض دیتے ہوئے طلاق کا مالک ہونا بھی ضروری ہے جو کہ اس لڑکی کے نکاح میں نہ ہونے کی صورت میں ملکیت نہیں پائی جا رہی ۔
جیسا کہ ردالمحتارمیں ہے کہ: لان التفویض تعتمد الملک اوالاضافۃ الیہ ولم یوجد۔
کیونکہ تفویض کا دار ومدار ملکیت یا اس کی طرف نسبت پر ہے جوکہ یہاں موجود نہیں ہے۔
ردالمحتار”، کتاب الطلاق، مطلب: فی الحشیشۃ…الخ، ج4، ص438
2) تفویض نکاح کو نکاح کا عقد کرتے ہوئے زبان سے کہلوایا گیا ،لیکن ایجاب لڑکے یا لڑکے کے وکیل کی طرف سے ہو ۔ اس صورت میں میں بھی تفویض طلاق صحیح نہیں ہے اور اس سے بیوی کو طلاق کا اختیار حاصل نہیں ہوگا کیونکہ تفویض طلاق کو نکاح کا عقد کرتے ہوئے زبان سے کہلوانے کی صورت میں شرط یہ ہے کہ ایجاب لڑکی یا اسکے وکیل کی طرف سے ہو جبکہ یہاں ایجاب لڑکے یا اس کے وکیل نے کیا ہے ۔
جیسا کہ در مختار میں ہے کہ: أما لو بدأ هو لاتطلق ولايصير الأمر بيدها.
ترجمہ : اگر ایجاب شوہر کی طرف سے ہوا تو تفویض طلاق نہیں ہو گی
الدر المختار وحاشية ابن عابدين جلد3 صفحہ 27
3) تفویض نکاح کو نکاح کا عقد کرتے ہوئے زبان سے کہلوایا گیا ،لیکن ایجاب لڑکی یا لڑکی کے وکیل کی طرف سے ہو ۔ اس صورت میں تفویض طلاق صحیح ہے اور بیوی کو طلاق کا اختیار حاصل ہوگا کیونکہ تفویض نکاح کو نکاح کا عقد کرتے ہوئے زبان سے کہلوانے کی صورت میں یہ ضروری ہے کہ ایجاب لڑکی یا اسکے وکیل کی طرف سے ہو جو کہ یہاں پر موجود ہے
جیسا کہ در مختار میں ہے کہ: لو ابتدأت المرأة، فقالت: زوجت نفسي على أن أمري بيدي أطلق نفسي كلما أريد أو على أني طالق فقال: قبلت وقع الطلاق وصار الأمر بيدها
ترجمہ : اگر ایجاب عورت کی طرف سے ہو اور عورت اس طرح کہے کہ میں اس شرط پر تجھ سے شادی کرتی ہوں کہ میرا معاملہ میرے ہاتھ میں ہے اور میں جب چاہوں اپنے آپ کو طلاق سے سکتی ہوں اور لڑکا کہے مجھے قبول ہے تو یہ تفویض طلاق صحیح ہو گئی اور عورت کو اختیار حاصل ہو گیا
الدر المختار وحاشية ابن عابدين جلد 3 صفحہ27
4) تفویض نکاح کو نکاح فارم پر نکاح ہونےکے بعد لکھا جائے۔اس صورت میں بھی تفویض طلاق صحیح ہے کیونکہ یہ نکاح کا عقد ہونے کے بعد لکھی گئی ہے اس لیے اس کے صحیح ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے
3) تیسری بات سوال میں یہ معلوم کی گئی کہ جب تفویض طلاق صحیح ہو گئی اور عورت کو طلاق کا اختیار حاصل ہو گیا تو یہ اختیار عورت کے پاس کب تک رہے گا ۔ اس حوالے سے عرض ہے کہ اگر عورت کو طلاق کا اختیار کسی شرط یا وقت کو بیان کیے بغیر دیا گیا تو عورت کو جس مجلس میں تفویض طلاق کا معلوم ہوا صرف اسی مجلس میں طلاق کا اختیار حاصل ہو گا مجلس بدلینے کی صورت میں طلاق کا اختیار ختم ہو جائے گا اور اگر طلاق کا اختیار کسی شرط یا وقت کو بیان کرنے کے ساتھ دیا گیا تو جب وہ شرط یا وقت پایا جس مجلس میں پایا جائے گا صرف اسی مجلس میں طلاق کا اختیار حاصل ہو گا مجلس بدلینے کی صورت میں طلاق کا اختیار ختم ہو جائے گا اور اگر عورت کو طلاق کا اختیار ان الفاظ کے ساتھ دیا کہ جب تو چاہے اپنے آپ کو طلاق دے دے تو اب عورت کے لیے کسی مجلس کی قید نہیں جب چاہے وہ اپنے آپ کو طلاق دے سکتی ہے ۔
جیسا کہ درمختار میں ہے کہ: قال لھا اختاری اوامرک بیدک ینوی تفویض الطلاق او طلقی نفسک، فلھا ان تطلق فی مجلس علمھا بہ مشافہۃ اواخبارا، وان طال یوما اواکثر مالم یوقتہ ویمضی الوقت قبل علمھا مالم تقم لتبدل مجلسھا حقیقۃ اوحکما بان تعمل مایقطعہ ممایدل علی الاعراض۔
لہذا بیوی کوکہا”اختیار کرلے” یا”تیرامعاملہ تیرے سپرد”تو تفویض طلاق ہوگی۔ یا اس کو کہا”تو اپنے آپ کو طلاق دے” تو ان صورتوں میں بیوی کو جس مجلس میں اس تفویض کا علم ہوا اس مجلس علم میں وُہ بالمشافہ یا بطور اطلاع اپنے اختیار کو استعمال کرسکتی ہے، اگر خاوند نے یہ اختیار کسی وقت کے ساتھ مخصوص نہ کیا ہوتو یہ مجلس ایک پورا دن یا اس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے اور اختیار کو کسی وقت سے مخصوص کیا ہو اور وُہ وقت بیوی کے علم سے قبل ختم ہوگیا تب بھی بیوی کو مجلسِ علم میں اختیار باقی ہوگا بشرطیکہ اس مجلس علم میں کوئی تبدیلی اُٹھنے یا اُٹھنے کے مترادف کوئی کام یا بات کرنے سے نہ آئی ہو کیونکہ ایسی بات یا کام حقیقۃً یا حکماًمجلس کی تبدیلی قرار پائے گا، مثلاًکسی ایسے کام میں وہاں ہی مصروف ہوجائے جس سے یہ سمجھا جائے کہ اس نے اختیار کو چھوڑدیا اور ختم کردیا ہے
درمختار باب تفویض الطلاق جلد 1 صفحہ 224 مطبع مجتبائی دہلی
اسی طرح الدر المختار میں ہے کہ: قال لھا: أنت طالق متی شئت أومتی ما شئت أو شئت أو إذا ما شئت فردت الأمر لا یرتد ولا یتقید بالمجلس
بیوی سے کہا جب تم چاہو تو تم کو طلاق ہے تو یہ تفویض طلاق کسی مجلس کے ساتھ خاص نہیں ہے ، جب عورت چاہے طلاق دے سکتی ہے
(الدر المختار مع الرد، فصل فی المشیئۃ جلد 2 صفحہ 672)
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل و ﷺ
کتبہ محمد وقاص عطاری
نظر ثانی: ابو محمد مفتی انس رضا قادری حفظہ اللہ تعالی
05 صفر المظفر 1443 ہجری