غسل میں مستعمل پانی کے قطرے بالٹی میں گرے تو

غسل میں مستعمل پانی کے قطرے بالٹی میں گرے تو

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ وضو یا غسل کرتے ہوئے اگر جسم سے جدا ہو کر پانی کے قطرے اس بالٹی میں گریں جس سے وضو یا غسل کر رہے ہیں تو کیا سارا پانی مستعمل ہو جائے گا؟

User ID:سید منہاج قادری عطاری

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

اس بارے میں حکم شرع یہ ہے کہ اگر غیر مستعمل پانی میں ملنے والا مستعمل پانی کم ہے تو پانی وضو و غسل کے قابل ہے ورنہ نہیں کیونکہ فقہی قاعدہ ہے کہ غیر مستعمل پانی میں اگر مستعمل پانی یا کچھ قطرے گر جائیں تو غالب کا اعتبار ہوگا اگر غیر مستعمل پانی زیادہ ہو اور مستعمل پانی کم ہو تو پانی وضو و غسل کے قابل ہے ورنہ نہیں ۔ نور الایضاح میں ہے:والغلبة في المائع الذي لا وصف له كالماء المستعمل وماء الورد المنقطع الرائحة تكون بالوزن فإن اختلط رطلان من الماء المستعمل برطل من المطلق لا يجوز به الوضوء وبعكسه جاز ترجمہ: اور وہ مائع چیزیں جن کا کوئی وصف نہیں ہوتا جیسے مستعمل پانی اور اس پھول کا پانی جس کی خوشبو ختم ہو گئی ہو ان میں غلبہ وزن کے ساتھ ہو گا پس اگر مستعمل پانی کے دو رطل مطلق پانی کے ایک رطل میں مل گئے تو اس سے وضو جائز نہیں اور اس کے الٹ میں جائز ہے۔

(الشرنبلالي، مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح، صفحة 16،المکتبۃ العصریہ)

صدر الشریعہ بدرالطریقہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فتاوی رضویہ کے حوالے سے لکھتے ہیں: مستعمل پانی اگر اچھے پانی میں مل جائے مثلاً وُضو یا غُسل کرتے وقت قطرے لوٹے یا گھڑے میں ٹپکے، تواگر اچھا پانی زِیادہ ہے تویہ وُضو اورغُسل کے کام کا ہے ورنہ سب بے کا ر ہوگیا۔ پانی میں ہاتھ پڑگیایا اَور کسی طرح مستعمل ہو گیا ۔

(بہار شریعت،جلد1،حصہ2،صفحہ334،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

کتبـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــہ

مولانا انتظار حسین مدنی کشمیری عفی عنہ

2شعبان المعظم 1445ھ/ 13فروری 2024 ء

اپنا تبصرہ بھیجیں