ڈیوٹی کے دوران نماز قضا کرنا کیسا؟

ڈیوٹی کے دوران نماز قضا کرنا کیسا؟

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس بارے میں کہ میں ایک فیکٹری میں کام کرتا ہوں، کام کے دوران ٹائم نہ مل پانے کی وجہ سے یا کبھی سستی کی وجہ سے مجھ سے فیکٹری میں کام کے دوران نماز میں کوتاہی ہو جاتی ہے اور نماز رہ جاتی ہے، تو میں کبھی ایسا کرتا ہوں کہ ظہر کے ساتھ فجر پڑھ لیتا ہوں اور کبھی ظہر بھی نہ پڑھ سکوں، تو عصر کے بعد ظہر اور فجر کے فرض بھی پڑھ لیتا ہوں اور کبھی عشا کے بعد سارے دن کی قضا نماز اکٹھی پڑھ لیتا ہوں، کیا میرا ایسا کرنا درست ہے؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب

آپ کا یہ فعل قطعاً درست نہیں، کیونکہ نماز قضا کرنا سخت حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔رزق حلال کمانے میں نماز یں قضا کردینا شرعی عذر نہیں ہے۔ آپ پر لازم ہے کہ اب تک جو ایسا ہوا اس کی سچی توبہ کریں نیز اگر کوئی نماز قضا ہے تو اسے جلد از جلد ادا فرما لیں۔ آئندہ سستی یا کام کسی بھی وجہ سے نماز میں کوتاہی یا وقت گزار کر نماز پڑھنے سے بچیں۔ یاد رہے! جان بوجھ کر ایک نماز بھی قضا کرنا (وقت گزار کر پڑھنا)گناہ کبیرہ ہے، جس پر کثیر وعیدیں منقول ہیں۔

اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:

﴿فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ (۴) الَّذِیْنَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَ(۵)﴾

ترجمہ کنزالعرفان: تو ان نمازیوں کے لئے خرابی ہے۔ جو اپنی نماز سے غافل ہیں ۔(پاره نمر 30، سورة الماعون 107، آیت نمبر 4-5)

مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی ﷫ (المتوفی: 1391ھ/1971ء) مذکورہ بالا آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

”نماز سے بھولنے کی چند صورتیں ہی: کبھی نہ پڑھنا، پابندی سے نہ پڑھنا، بلاوجہ مسجد میں نہ پڑھنا، صحیح وقت پر نہ پڑھنا، بلاوجہ بغیر جماعت پڑھنا، نماز صحیح طریقہ سے ادا نہ کرنا، شوق سے نہ پڑھنا، سمجھ بوجھ کر ادا نہ کرنا، کسل و سستی، بےپروائی سے پڑھنا۔“(تفسیر نور العرفان، پارہ نمبر 30، صفحه نمبر 958، مطبوعه: فرید بکڈپو لمٹیڈ، دھلی)

اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:

﴿ فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ وَ اتَّبَعُوا الشَّهَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّا(۵۹)﴾

ترجمہ کنز العرفان: تو ان کے بعد وہ نالائق لو گ ان کی جگہ آئے جنہوں نے نمازوں کو ضائع کیا اور اپنی خواہشوں کی پیروی کی تو عنقریب وہ جہنم کی خوفناک وادی غی سے جاملیں گے۔(پاره نمر 16، سورة مریم 19، آیت نمبر59)

مفتی احمد یار خان نعیمی ﷫ (المتوفی: 1391ھ/1971ء) مذکورہ بالا آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

”اس سے معلوم ہوا کہ نمازوں میں سستی تمام گناہوں کی جڑ ہے۔ اس سستی کی کئی صورتیں ہیں نماز نہ پڑھنا، بےوقت پڑھنا، بلاوجہ بغیر جماعت پڑھنا، ہمیشہ نہ پڑھنا، ریاکاری سے پڑھنا وغیرہ۔ “غی” دوزخ کے ایک جنگل کا نام ہے جس کی گرمی سے دوزخ کے دوسرے طبقے بھی پناہ مانگتے ہیں وہاں ، زانی ، سودخور، ماں باپ کے نافرمان، جھوٹی گواہیاں دینے والے رکھے جائیں گے ۔“(تفسیر نور العرفان، پارہ نمبر 16، صفحه نمبر 493، مطبوعه: فرید بکڈپو لمیٹڈ، دھلی)

حدیثِ مبارک میں ہے:

” عن أبي سعيد عن النبي صلى الله عليه وسلم من ترک الصلاۃ متعمداً کتب اسمه على باب النار فيمن يدخلها “

ترجمہ: حضرت ابو سعید سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:جس نے جان بوجھ کر نماز چھوڑی تو اس کا نام جہنم کے اس دروازے پر لکھ دیا جاتا ہے، جس سے وہ جہنم میں داخل ہو گا۔ (حلیۃ الاولیاء، جلد نمبر 07، صفحه نمبر 992، حدیث 10590، مطبوعه: دار الکتب العلمیہ، بیروت)

شیخ الإسلام والمسلمین امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان﷫ (المتوفی: 1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:

”ایمان و تصحیح عقائد کے بعد جملہ حقوق اللہ میں سب سے اہم واعظم نماز ہے۔ … جس نے جان بوجھ کر ایک وقت کی نماز چھوڑی ہزاروں برس جہنّم میں رہنے کا مستحق ہوا، جب تک توبہ نہ کرے اور اس کی قضا نہ کر لے۔“(فتاوی رضویہ، جلد 9، صفحہ 158 تا 159، مطبوعہ: رضا فاؤنڈیشن لاہور)

و اللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبــــــــــــــــــــــــــــہ

مولانا احمد رضا عطاری حنفی

12 صفر المظفر 1445ھ / 29 اگست 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں