پلاٹ پر زکوۃ کے احکام

پلاٹ پر زکوۃ کے احکام

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس بارے میں کہ زید نے ایک پلاٹ خریدا، اس نیت سے کہ یہاں اپنے لیے رہائشی مکان بناؤں گا، اس بات کو چند سال گزر گئے اب اسے لوگوں نے مشورہ دیا کہ یہ علاقہ ٹھیک نہیں اس لیے یہاں رہائش نہ رکھنا تو اس نے اس پلاٹ پر بیچنے کی نیت کر لی کہ جیسے ہی کوئی اچھا دام ملے گا بیچ دے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اب اس پر زکوۃ لازم ہوگی یا نہیں؟ نیز سابقہ سالوں کی زکوۃ میں اس پلاٹ کی زکوۃ ادا نہیں کی گئی کیونکہ یہ رہائش کی نیت سے تھا تو کیا اب سابقہ سالوں کی بھی زکوٰۃ دینی ہوگی؟

سائل: اسید رضا عطاری (بارسلونا)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب

صورت مسئولہ میں اس پلاٹ پر نہ ابھی زکوٰۃ لازم ہے اور نہ ہی پچھلے سالوں کی زکوٰۃ لازم ہے۔

تفصیل اس مسئلے کی یوں ہے کہ زکوٰۃ صرف تین قسم کے اموال پر ہوتی ہے: (1)ثمن یعنی سونا ، چاندی (اس کے ساتھ تمام ممالک کی کرنسیز بھی شامل ہیں)۔(2)چرائی پر چُھوٹے جانور۔(3)مالِ تجارت۔ بدیہی سے بات ہے کہ پلاٹ پہلی دو قسموں میں سے نہیں ہو سکتا، رہی تیسری قسم تو پہلے مال تجارت کی تعریف کا جاننا ضروری ہے، پس مالِ تجارت سے مراد وہ مال (سامان، پلاٹ وغیرہ) ہوتا ہے جسے بیچنے کی نیت سے خریدا ہو اور ابھی تک وہی نیت باقی بھی ہو۔ اس تشریح سے واضح ہوگیا کہ وہ پلاٹ مال تجارت میں سے بھی نہیں کیونکہ اس کو خریدتے وقت فروخت کرنے کی نیت نہیں تھی۔ یوں ہی فقہائے کرام نے تصریح فرمائی ہے کہ کسی مال کو خریدتے وقت تو بیچنے کی نیت نہیں تھی بعد میں اس پر تجارت کی نیت کر لی گئی تو اس سے وہ مال تجارت نہیں بن جاتا کیونکہ کسی چیز کے مال تجارت بننے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کی خریداری کا سودا کرتے وقت تجارت کی (یعنی آگے فروخت کرنے کی) نیت پائی جائے۔

شیخ الإسلام والمسلمین امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان﷫ (المتوفی: 1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:

”زکوٰۃ صرف تین چیزوں پر ہے:سونا ، چاندی کیسے ہی ہوں، پہننے کے ہوں یا برتنے کے ، سکّہ ہو یا ورق۔ دوسرے چرائی پر چھوٹے جانور۔ تیسرے تجارت کا مال۔ باقی کسی چیز پر نہیں۔“(فتاوی رضویة، کتاب الزکوۃ، جلد نمبر 10، صفحه نمبر 161، مطبوعه: رضا فاؤنڈیشن لاهور)

علامہ علاؤ الدین محمد بن علی الحصکفی ﷫ (المتوفی: 1088ھ/1677ء) لکھتے ہیں:

”ولا بد ‌من ‌مقارنتها لعقد التجارة“

ترجمہ: مال تجارت بننے کے لئے سامان کو خریدتے وقت تجارت کی نیت کا ہونا ضروری ہے۔(الدر المختار شرح تنویر الابصار، کتاب الزکوۃ، جلد نمبر 1، صفحه نمبر 127، مطبوعه: دار الکتب العلمیة، بیروت)

خاتم المحققین علامہ ابن عابدين سید محمد امين بن عمر شامی حنفی ﷫ (المتوفى: 1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں: ”(قوله: ولا تصح نية التجارة إلخ) لأنها لا تصح إلا عند عقد التجارة، فلا تصح فيما ملكه بغير عقد كإرث ونحوه“

ترجمہ: تجارت کی نیت سامان کا سودا طے کرنے کے وقت ہی ہوتی ہے، لہذا اگر کوئی ایسے مال میں تجارت کی نیت کرے جو خریدے بغیر حاصل ہوا ہو مثلاً وراثت وغیرہ کے ذریعے سے تو اس میں تجارت کی نیت درست نہیں ہے۔(رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الزکوۃ، جلد نمبر 2، صفحه نمبر 268، مطبوعه: دار الفکر، بیروت)

صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی ﷫ (المتوفی: 1367ھ/1948ء) لکھتے ہیں:

” نیّت تجارت کے لیے یہ شرط ہے کہ وقت عقد نیّت ہو، اگرچہ دلالۃً تو اگر عقد کے بعد نیّت کی زکاۃ واجب نہ ہوئی۔ یو ہیں اگررکھنے کے لیے کوئی چیز لی اور یہ نیّت کی کہ نفع ملے گا تو بیچ ڈالوں گا توزکاۃ واجب نہیں۔“(بہار شریعت، جلد نمبر 1، حصہ نمبر 5،صفحه نمبر 883، مطبوعه: مکتبة المدینہ، کراچی)

مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد وقار الدین قادری ﷫ (المتوفی: 1413ھ/1993ء) لکھتے ہیں:

”کسی چیز کو خریدتے وقت اگر یہ ارادہ ہے کہ اس کو فروخت کرے گا تو وہ مال تجارت ہو جاتا ہے، اس کی قیمت پر زکوٰۃ ہوتی ہے اور اگر خریدتے وقت بیچنے کی نیت نہ تھی تو اس کی قیمت پر زکوٰۃ نہیں ہوتی ہے۔“(وقار الفتاوی، کتاب الزکوۃ، جلد نمبر 2،صفحه نمبر 388، مطبوعه: بزم وقار الدین، کراچی)

و اللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبہ

مولانا احمد رضا عطاری حنفی

29 ربیع الاول 1445ھ / 15 اکتوبر 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں