ٹینکی سے اگر مرا ہو ا چوہا ملے تو نمازوں کا حکم

ٹینکی سے اگر مرا ہو ا چوہا ملے تو نمازوں کا حکم

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مسجد کے پانی سے دو دن سے بو آرہی تھی،جب پانی کی ٹینکی دیکھی تو اس میں ایک چوہا مرا ہوا تھا۔ جو کہ پھول کر پھٹ چکا تھا۔ ٹینکی دہ دردہ سے کم تھی۔ چوہے کے گرنے کا وقت معلوم نہیں کہ کب گرا۔ اس حوالے سے پوچھنا یہ تھا کہ اب کتنے دنوں کی نمازیں دہرانا ہوں گی؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

صورت مسئولہ کا حکم یہ ہے کہ جب کنوئیں یا ٹینکی میں چوہا گر کر مرا اور پھول کر پھٹ گیا، مگر گرنے کا وقت معلوم نہیں،تو اس بارے فقہاء کرام نے صاحبین (امام ابویوسف و محمد علیہما الرحمہ) کے قول پر آسانی کے پیش نظر فتوی دیا ہے کہ جب مردہ جانور دیکھا گیا تب سے پانی نجس یعنی ناپاک جانا جائے گا کہ اب اس سے وضو وغیرہ درست نہیں،اور نہ ہی نمازیں ادا ہوں گی، گزشتہ وضو وغیرہ کر کے پڑھی گئیں نمازیں درست ہیں،ادا ہو گئیں، لیکن امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ کے قول کے مطابق احتیاط کی بنا پر تین دن رات کی نمازیں لوٹانا بہتر ہے۔

هداية میں ہے:

”قال: وإن وجدوا في البئر فأرة أو غيرها ولا يدري متى وقعت ولم تنتفخ ولم تتفسخ أعادوا صلاة يوم وليلة إذا كانوا توضئوا منها وغسلوا كل شيء أصابه ماؤها وإن كانت قد إنتفخت أو تفسخت أعادوا صلاة ثلاثة أيام ولياليها وهذا عند أبي حنيفة رحمه الله وقالا ليس عليهم إعادة شيء حتى يتتحققوا متى وقعت“

ترجمہ: اور اگر لوگوں نے کنویں میں چوہا وغیرہ پایا اور یہ معلوم نہیں کہ کب پانی میں پڑا اور نہ پھولا نہ پھٹا تو ایک دن رات کی نمازیں لوٹائیں جبکہ اس سے وضو کیا ہو اور ہر وہ چیز دھوئیں جسے وہ پانی پہنچا ہو اور اگر پھول یا پھٹ گیا تو تین دن رات کی نمازیں دہرائیں اور یہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللّٰہ کے نزدیک ہے اور صاحبین نے فرمایا کہ ان پر اعادہ نہیں حتی کہ تحقیق کر لیں کہ جانور کب پانی میں پڑا۔(الهداية،فصل فی البئر،25/1، داراحیاء التراث العربی بیروت)

تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے:

”(ويحكم بنجاستها) مغلظة (من وقت الوقوع إن علم، وإلا فمذ يوم وليلة إن لم ينتفخ ولم يتفسخ)…. (ومذ ثلاثة أيام) بلياليها (إن انتفخ أو تفسخ) استحسانا. وقالا: من وقت العلم فلا يلزمهم شيء قبله، قيل وبه يفتى“

ترجمہ:اور اس کی نجاست غلیظہ کا حکم ہو گا واقع ہونے کے وقت سے اگر معلوم ہو،وگرنہ ایک دن رات کا حکم ہو گا اگر مردہ جانور نہ پھولا نہ پھٹا۔۔۔ اور استحسان کے طور پر تین دن رات کا حکم ہوگا اگر پھولا اور پھٹ گیا۔ اور صاحبین نے کہا کہ جاننے کے وقت سے نجاست کا حکم ہے اس سے پہلے نہیں، کہا گیا کہ اسی پر فتوی ہے۔(الدر المختار، کتاب الطہارۃ،218/1-219، دار الفکر بیروت)

اس کے تحت ردالمحتار میں ہے:

”وصرح في البدائع بأن قولهما قياس، وقوله استحسان، وهو الأحوط في العبادات“

اور بدائع میں تصریح کی کہ صاحبین کا قول قیاس ہے اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللّٰہ کا قول استحسان ہے اور یہی عبادات میں احوط ہے۔(ردالمحتار مع درمختار،کتاب الطہارۃ،فصل فی البئر ،1/ 219،دارالفکر بیروت)

فتاوی رضویہ میں ہے:

”پانی توڑنے کی کوئی حاجت نہیں جتنا پانی اس میں موجود ہے اتنے ڈول نکال دیں پاک ہوجائیگا تین دن رات کی نماز کا اعادہ بہتر ہے، واللہ تعالٰی اعلم۔“(فتاوی رضویہ،ج3، ص294،مسئلہ:96، رضا فاونڈیشن لاہور)

بہار شریعت میں ہے:

” اگر(جانور گرنے کا)وقت معلوم نہیں تو جس وقت دیکھا گیااس وقت سے نجس قرار پائے گا۔ اگرچہ پھولا پھٹا ہو اس سے قبل پانی نجس نہیں اور پہلے جو وُضو یا غُسل کیا یا کپڑے دھوئے کچھ حَرَج نہیں، تیسیراً اسی پر عمل ہے۔ “(بہار شریعت،کنوئیں کا بیان، ج1،حصہ2،ص340،مکتبۃ المدینہ کراچی)

واللّٰہ تعالٰی اعلم و رسولہ اعلم باالصواب

صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ و آلہ و اصحابہ و بارک و سلم

ابوالمصطفٰی محمد شاہد حمید قادری

19ربیع الاول1445ھ

6اکتوبر2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں