وقف جگہ کو کرایہ پر دینا

وقف جگہ کو کرایہ پر دینا

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مسجد یا مدرسہ کا کوئی حصہ یعنی کمرہ وغیرہ خالی ہو جو استعمال میں نہیں اسے بیچنا یا کرایہ پر دے سکتے ہیں؟یونہی امام مسجد کا حجرہ یا مسجد کے اوپر چند منزلیں بناکر ان کو کرایہ پر دینا درست ہے؟ اگر یہ شرعا درست نہیں تو جو انتظامیہ ایسا کرے اس کے متعلق کیا حکم ہے؟

بسم الله الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب

وقف شدہ مسجد و مدرسہ کے کسی حصے کو بعد میں بیچنا یا کرایہ پر دینا ناجائزوحرا م ہے۔یونہی امام مسجد کا حجر یا مدرسہ کا کمرہ خالی پڑا ہے یا مسجد کے اوپر مزید منزلیں ڈال کر اسے بھی کرایہ پر نہیں دے سکتے۔اگر واقف یا انتظامیہ ایسا کرے تو سخت گناہ گار اور ایسے لوگوں کو وقف کے متولی ہونے سے معزول کردیا جائے اور اہل علاقہ پر لازم ہے کہ وہ وقف کی حفاظت کرتے ہوئے اس ناجائز فعل کو روکنے کی کوشش کریں۔

فتاوی رضویہ میں ہے

” وقف کے رہن وبیع ناجائز ہیں۔”(فتاوی رضویہ ،جلد 16 ،صفحہ 165 ،رضا فاؤنڈیشن ،لاہور)

درمختار میں ہے

” لایجوز ان یتخذ شئ منہ مستغلًا “

( مسجد کے) کسی حصے کو کرایہ حاصل کرنے کے لئے مقرر کرنا جائز نہیں ۔(درالمختار، جلد 6 ، کتاب الوقف ،صفحہ 550 ،مکتبہ رشیدیہ ، کوئٹہ )

فتاویٰ عالمگیری میں ہے

” قیم المسجد لا یجوز لہ أن یبنی حوانیت فی حد المسجد أو فی فنائہ لان المسجد اذا جعل حانوتا ومسکناً تسقط حرمتہ وھذا لا یجوز والفناء تبع المسجد فیکون حکمہ حکم المسجد کذا فی محیط السرخسی “

ترجمہ: مسجد کے متولی کامسجد یا فنائے مسجد کی حدود میں دکانیں بنانا جائز نہیں اس لئے کہ جب مسجد دکان یا رہائش بنے گی اس سے مسجد کی حرمت ساقط ہو جائے گی اور فنائے مسجد کا حکم مسجد کی طرح ہی ہے جیسا کہ محیط سرخسی میں ہے ۔(فتاوی عالمگیری ،جلد 2، کتاب الوقف ، الفصل الثانی فی الوقف علی المسجد ، صفحہ 462 ،اسلامی کتب خانہ ،لاہور )

فتاوی رضویہ میں اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں ہے:

“جو زمین مسجد ہو چکی اس کے کسی حصہ کسی جز کا غیر مسجد کر دینا اگرچہ متعلقات ِ مسجد ہی سے کوئی چیز ہو حرام قطعی ہے قال اللہ تعالیٰ وان المسٰجدللّہ “ترجمہ : الله تعالیٰ نے فرمایا( بیشک مسجدیں الله تعالیٰ کی ہیں ) پہلے جو ایک حصہ فرش کا زینہ میں شامل کرنا چاہا تھا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تمام فرش گر گیا اب فرش کو دکانیں کرنا چاہتے ہیں یہ حرام اور سخت حرام ہے ،ان دکانوں میں بیٹھنا حرام ہو گا ،ان سے کوئی چیز خریدنے کے لئے جانا حرام ہو گا ،فنائے مسجد میں دکانیں کرنے کو تو علماء نے منع فرمایا نہ کہ معاذ الله نفس مسجد میں ۔“(فتاوی رضویہ ،جلد 16 ، صفحہ 482 ، رضا فاؤنڈیشن ،لاہور)

فتاوی نوریہ میں اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں ہے

” مسجد کا بلند کرنا واقعی تعظیم مسجد ہے مگر مسجد میں دکانیں بنانا کرایہ پر دینا مسجد کی بے حرمتی واہانت ہے جو شرعا حرام اور سخت حرام ہے افسوس بعض اہل اسلام کے حوصلے اتنے پست ہو گئے کہ خانہ خدا کے اجزاء کرایہ پر دینے کو تیار ہو گئے یہ ہر گز ہر گز جائز نہیں ۔“(فتاوی نوریہ ،جلد 1 کتاب الوقف ،ص 140 ،دارالعلوم حنفیہ فریدیہ)

فتاوی بحرالعلوم میں ہے :

”مسجد ہو جانے کے بعد اس کا کوئی حصہ کسی دوسرےکام میں استعمال کرنا حرام حرام سخت حرام ہے اور یہاں تو پوری ایک منزل ہی دوکان بنا ڈالی ہے ۔۔مسجد مکمل ہو گئی پھر اس پر مکان بنانا حرام ہے ۔مسجد کے ذمہ داروں پر لازم ہے کہ فورا یہ حرام کام علیحدہ کریں اور مسجد کو نماز کے لئے خالی کریں ۔“(فتاوی بحرالعلوم ،جلد 5 صفحہ 137 )

اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:

” جو باوصفِ قدرت اُسے منع نہ کرے وہ بھی مرتکب حرام ہے اوربطمع کرایہ اُسے روارکھنا سستے داموں دوزخ مول لینا ہے، یہ کام اُسی شخص کے ہو سکتے ہیں جس کے دل میں نہ اسلام کی قدر ، نہ مسلمانوں کی عزت، نہ خدا کا خوف، نہ موت کی ہیبت، والعیاذباﷲ تعالٰی۔” ( فتاوی رضویہ، جلد9، صفحہ410، رضا فاونڈیشن، لاہور )

واللہ و رسولہ اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

ابوبکر نیلمی

03 فروری2023

کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت کہاں ہوئی؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ کعبہ میں ہوئی۔ کیا یہ صحیح ہے؟

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الوہاب اللہم ہدایۃالحق والصواب

بعض کتابوں میں آیا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے۔جبکہ زیادہ صحیح یہی ہے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت خانہ کعبہ میں نہیں ہوئی۔مستند کتب میں اس کی صراحت ہے کہ خانہ کعبہ میں سوائے حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کسی کی پیدائش نہیں ہوئی چنانچہ امام نووی(المتوفی676ھ) ،تہذیب الاسماء واللغات میں،امام جلال الدین سیوطی(المتوفی911ھ)،تدریب الراوی میں،علامہ شمس الدین محمد بن عمر بن احمد السفیری(المتوفی956ھ)،المجالس الوعظیۃ میں،علامہ محمد بن علی بن محمد البکری الصدیقی(المتوفی1057ھ)،دلیل الفالحین لطرق ریاض الصالحین میں،علامہ شہاب الدین احمد بن محمد بن عمر خفاجی(المتوفی1069ھ)،نسیم الریاض میں،ملا علی قاری (المتوفی1014ھ)شرح شفاء میں لکھتے ہیں’’(وحکیم بن حزام) بکسر الحاء وبالزاء ولد فی الکعبۃ قبل عام الفیل بثلاث عشرۃ سنۃ ولا یعرف أحد ولد فی الکعبۃ غیرہ علی الأشہر‘‘

(شرح الشفا،جلد1،صفحہ159، دار الکتب العلمیۃ،بیروت)

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خانہ کعبہ میں پیدائش کے متعلق روایت کو علماء کرام نے ضعیف کہا ہے چنانچہ علی بن إبراہیم بن أحمد الحلبی (المتوفی1044ھ) رحمۃ اللہ علیہ السیرۃ الحلبیۃ میں لکھتے ہیں’’حکیم بن حزام ولد فی جوف الکعبۃ، ولا یعرف ذلک لغیرہ وأما ما روی أن علیا ولد فیہا فضعیف عند العلماء ‘‘ترجمہ: حکیم بن حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہ خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے اور ان کے علاوہ کسی اور کا خانہ کعبہ میں پیدا ہونا معلوم نہیں۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حانہ کعبہ کے اندر پیدا ہونے کی روایت علماء کرام کے نزدیک ضعیف ہے۔

(السیرۃ الحلبیۃ ،جلد1،صفحہ202،دار الکتب العلمیۃ،بیروت)

المجموع شرح المہذب میں اما نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں’’وأما حکیم ابن حزام بالزای فہو أبو خالد حکیم بن حزام بن خویلد بن أسد بن عبد العزی أسلم یوم الفتح وکان ولد فی جوف الکعبۃ ولم یصح أن غیرہ ولد فی الکعبۃ‘‘یعنی حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ کسی اور کے خانہ کعبہ میں پیدا ہونے کی روایت صحیح نہیں۔

(المجموع شرح المہذب،جلد2،صفحہ66، دار الفکر،بیروت)

علماء کرام فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت شعب بنی ہاشم میں ہوئی چنانچہ امام حافظ ابوعمرو خلیفہ بن خیاط اللیثی(المتوفی 240ھ)،تاریخ خلیفہ میں،امام حافظ ابوالقاسم علی بن حسن بن ہبۃ اللہ شافعی(المتوفی 571 ھ)،تاریخ دمشق میں،علامہ ابوالفضل جمال الدین محمد بن مکرم ابن منظور (المتوفی 711ھ) میں،احمد بن محمد بن عبدربہ الاندلسی(المتوفی 328ھ)،کتاب العقد الفریدمیں فرماتے ہیں’’ولد علی بمکۃ فی شعب بنی ہاشم‘‘

(تاریخ دمشق،جلد42،صفحہ575،دار الفکر،بیروت)

مزید تفصیل کے لئے کتاب بنام’’مولود کعبہ کون؟ کا مطالعہ کریں۔

واللہ اعلم ورسولہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم

کتبہ

المتخصص فی الفقہ الاسلامی

ابواحمد محمد انس رضا عطاری

07 رجب المرجب 1432؁ھ10 جون 2011؁ء

اپنا تبصرہ بھیجیں