وقف جگہ کوتبدیل کرنا

وقف جگہ کوتبدیل کرنا

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص نے اپنی زمین مسجد یا مدرسہ وغیرہ کے لیے بغیر کسی شرط کے وقف کردی۔اب واقف یا اس کے ورثہ ایسا کرسکتے ہیں کہ اس وقف شدہ زمین کے بدلے میں دوسری زمین جواس کے برابر یا اس سے زیادہ یا اعلیٰ ہو ،اس سے تبادلہ کرلیں؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب

بیان کی گئی صورت میں اب وقف جگہ کو تبدیل کرنا (اگرچہ وہ دوسری جگہ اِس سے کئی گنا بہتر ہو) جائز نہیں۔ شرعا جو جگہ ایک مرتبہ بغیر کسی شرط کے وقف ہوجائے تو وہ قیامت اسی طرح باقی رہتی ہے اس میں کسی طرح کی تبدیلی کرنا جائز نہیں۔

رد المحتار میں ہے:

”أن الفتوى على أن المسجد لا يعود ميراثا ولا يجوز نقله“

ترجمہ:اس پر فتوی ہے کہ مسجد نہ میراث بنے گی اور نہ اسے نقل یعنی منتقل کرنا جائز ہے۔(ردالمختار،کتاب الوقف،ج4، ص359، دارالفکر بیروت)

فتح القدیر میں ہے:

”لأن الواجب إبقاء الوقف على ما كان عليه دون زيادة أخرى“

ترجمہ: کیونکہ وقف کو بغیر کسی زیادتی کے اس کی پہلی حالت پر باقی رکھنا واجب ہے۔(فتح القدیر،کتاب الوقف،6/ 228،دار الفکر بیروت)

فتاوی رضویہ میں ہے:

”وقف صحیح ہو جانے کے بعد اس میں کسی تبدیلی کا اصلاً اختیار نہیں۔“(فتاوی رضویہ،جلد16، صفحہ 119،رضا فاونڈیشن ،لاہور)

فتاوی تاج الشریعہ میں ہے:

”اور اس جگہ بوجہ قلتِ جماعت نماز نہ ہونا، اسے مسجد ہونے سے نکال نہ دے گا کہ جب اس قطعہ اراضی کو نماز کے لئے وقف کردیا تو وہ مسجد ہوگئی اور قیامت تک مسجد ہی رہے گی۔“(فتاوی تاج الشریعہ ج4 ص327 مسئلہ 556)

واللّٰہ تعالیٰ اعلم و رسولہ اعلم باالصواب

صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ و آلہ و اصحابہ و بارک و سلم

ابوالمصطفٰی محمد شاہد حمید قادری

1ربیع الاول 1445ھ

18ستمبر2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں