زکوٰۃ کی رقم شرعی فقیر کو نہ دینا بلکہ اس پر خرچ کردینا

زکوٰۃ کی رقم شرعی فقیر کو نہ دینا بلکہ اس پر خرچ کردینا

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین اس بارے میں کہ زکوٰۃ کی رقم سے درس نظامی کے طلبہ کو دوسرے ملک سے کراچی اعتکاف کے لیے بھیج سکتے ہیں؟ان کے ڈاکومنٹ اور ٹکٹ کے اخراجات ایک شخصیت زکوٰۃ سے کر رہی ہے۔کیا کسی اور فقیر سے حیلہ شرعی کرواکر ان کے پراسس پر خرچ کر سکتے ہیں؟

بسم الله الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھّاب اللھمّ ھدایۃ الحق والصواب

مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی ہے جن پر زکوۃ فرض ہوتی ہے لیکن وہ زکوۃ دیتی ہی نہیں اور جو لوگ زکوٰۃ دیتے ہیں ان میں ایک بڑی تعداد ایسی ہے جن کو زکوٰۃ کے احکام صحیح طرح معلوم نہیں۔زکوۃ کتنے مال پر کتنی لازم ہے، کس وقت ادا کرنا واجب ہے،کس کو دے سکتے ہیں کس کو نہیں اور کس طریقے سے دے سکتے ہیں وغیرہ یہ سب احکام معلوم ہونا ضروری ہیں۔

اب مذکورہ صورت میں شرعی حکم یہ ہے کہ زکوۃ کی رقم شرعی فقیر کی ملکیت کی جائے، اگر کسی نے شرعی فقیر کی ملکیت کیے بغیر زکوۃ کی رقم سفری اخراجات،شادی میں یا اسپتال اور دیگر تعمیرات وغیرہ میں خرچ کردی تو زکوۃ ادا نہ ہوگی۔ شرعی حکم یہ ہے کہ جو مستحق زکوۃ ہو اس کو وہ رقم دی جائے وہ چاہے سفر کرے یا دیگر ضروری کاموں میں خرچ کرے۔ہر جگہ شرعی حیلہ کرنا جائز نہیں ہوتا۔

بدائع الصنائع میں ہے

”و قد امر اللہ تعالی الملاک بایتاء الزکاۃ لقولہ عز وجل ﴿ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ ﴾و الایتاء ھو التملیک“

ترجمہ : اللہ عز وجل نے مال والوں کو زکوٰۃ دینے کا حکم دیا ہے ۔ چنانچہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے : ﴿ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ ﴾ ( یعنی زکوٰۃ دو ) اور ایتاء یعنی دینے کا مطلب ہی مالک کر دینا ہوتا ہے ۔( بدائع الصنائع ، کتاب الزکوٰۃ ، فصل رکن الزکوٰۃ ، ج 2 ، ص 142 ، مطبوعہ کوئٹہ )

فتاوی عالمگیری میں ہے

” أما تفسیرھا فھی تملیک المال من فقیر مسلم غیر ھاشمی ولا مولاہ “

ترجمہ:زکوٰۃ کی وضاحت یہ ہے کہ مسلمان فقیر کو مال کا مالک بنانا جو کہ ہاشمی نہ ہو اور نہ ہی ہاشمی کا غلام ہو ۔(فتاوی عالمگیری ،جلد 1 کتاب الزکوۃ ،الباب الأول فی تفسیر الزکوۃ ،صفحہ 170 ،اسلامی کتب خانہ ،لاہور)

فتاوی امجدیہ میں ہے:

” ہاں مدرسہ کے طلباء کو دے سکتے ہیں جب کہ بطور تملیک ہو نہ بطور اباحت “(فتاوی امجدیہ،جلد 1 ،صفحہ 371، مکتبہ رضویہ ،کراچی)

بہار شریعت میں ہے:

”طالب علم کہ علم دین پڑھتا یا پڑھانا چاہتا ہے اسے دے سکتے ہیں کہ یہ بھی راہ خدا میں دینا ہے ۔“( بہار شریعت ،جلد 1 ،صفحہ 926 ،مکتبۃ المدینہ ،کراچی )

امام اہلسنت طالب علم کے محتاج ہونے کی صورت میں اسے زکوٰۃ وغیرہ دینے کے بارے میں فرماتے ہیں:

” بالجملہ مدار کار حاجت مندی بمعنی مذکور پر ہے تو جو نصاب مذکور پر دسترس رکھتا ہے وہ زکوٰۃ نہیں پا سکتا اگرچہ غازی ہو یا حاجی یا طالب علم یا مفتی ۔۔“(فتاوی رضویہ ،جلد 10،صفحہ 110 ،رضا فاؤنڈیشن ،لاہور )

بہار شریعت میں ہے :

”زکاۃ کا روپیہ مردہ کی تجہیز وتکفین یا مسجد کی تعمیر میں نہیں صرف کر سکتے کہ تملیک فقیر نہیں پائی گئی اور ان امور میں صرف کرنا چاہیں تو اس کا طریقہ یہ ہےکہ فقیر کو مالک کر دیں اور وہ صرف کرے اور ثواب دونوں کو ہو گا ۔“( بہار شریعت جلد 1 حصہ پنجم 890 ،مکتبۃ المدینہ ،کراچی )

وقارالفتاوی میں حیلہ کی شرعی حیثیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

”یہ حیلہ بھی مصارف خیر میں خرچ کرنے کے لئے مجبوری کی حالت میں کرنا چاہیے کہ جب اس کام کے لئے پیسے حاصل کرنے کا کوئی اور زریعہ نہ ہو ۔“( وقار الفتاوی ،جلد 2 کتاب الزکاۃ ،صفحہ 412 ،بزم وقارالدین ،)

فتاوی بحر العلوم میں ہے:

” علماے دین نے فطرہ وزکوۃ کی رقم میں حیلہ کرنے کی اجازت ناگزیر دینی ضروریات کے لئے روا رکھا ہے۔۔۔۔۔روایت ہے کہ ایک ادارہ کے لوگوں نے اپنے یہاں کے دارلعلوم سے مسئلہ پوچھا ہمارے ادارے میں ادارے کے کام کے لئے قریب پاس میں آنے جانے کے لئے ہر دم کام لگا رہتا ہے تو زکوٰۃ کی رقم سے حیلہ کر کے کوئی آٹو رکشہ خرید لیا جائے ، مفتی صاحب نے اجازت دے دی انہوں نے ایسی ہی رقم سے ایک ماروتی خرید کر ادارے کے اعلٰی عہدیدار کو نذر کر دی ۔اب بتائیے کہاں نشانہ لگا اور کہاں مارا ،اللہ تعالی مسلمانوں کے حال پر رحم فرمائے ۔“( فتاوی بحر العلوم ،جلد 2، کتاب الزکاۃ ،صفحہ 192 ،193 شبیر برادرز ،لاہور )

فتاوی فقیہ ملت میں اسی طرح کے سوال کے جواب میں ہے :

”لہذا سرمایہ کاروں کو ہر دینی کام کے لئے حیلہ شرعی کی ہر گز اجازت نہیں بلکہ جب الله پاک نے انہیں کثیر دولت سے نوازا ہے تو ڈھائی فیصد جو غرباء ومساکین کا حق ہے وہ اسے ان لوگوں تک پہنچنے دیں اور ساڈھے ستانوے فیصد جو زکاۃ دینے والوں کے پاس بچتا ہے اس طرح کے کام اسی سے کریں اور غریبوں کا حق نہ ماریں ۔“( فتاوی فقیہ ملت ،جلد 1 ،کتاب الزکاۃ ،صفحہ305،شبیر برادرز ،لاہور )

واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی الله علیہ وسلم

ابوبکر نیلمی

23 فروری 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں