حرم شریف کی خادمین کو صدقہ وزکوۃ دینا

حرم شریف کی خادمین کو صدقہ وزکوۃ دینا

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس بارے میں کہ حرم شریف میں جو خادم ہیں یہ صدقے اور زکوۃ والے روپے لے سکتے ہیں کہ نہیں؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوہاب الھم ھدایۃ الحق والصواب

اولا یہ ذھن نشین کر لیں کہ زکاۃ اور صدقات واجبہ جیسے( نذر، کفارہ، فدیہ اور صدقہ فطر وغیرہ) کے ادا ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اسے کسی مسلمان، غیر ھاشمی،مستحقِ زکاۃ شخص کو بغیر عوض کے مالک بناکر دیا جائے البتہ نفلی عطیات و صدقات دینا جائز ہے۔

اب سوال میں بیان کی گئی صورت میں اگر حرم شریف کا خادم مستحق زکاۃ، غیر ھاشمی، ہے تو اسےزکاۃ اور صدقات واجبہ دینا اور اس کا لینا جائز ہے ورنہ جائز نہیں ۔ البتہ نفلی صدقات لے سکتا ہے ۔

اللہ تَعَالٰی نے اپنے پاک کلام ميں آٹھ مصارفِ زکوٰۃ بيان فرمائے ہيں:

”اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْعٰمِلِیْنَ عَلَیْهَا وَ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الْغٰرِمِیْنَ وَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِؕ“

ترجمہ کنزالايمان: زکوٰۃ تو انہيں لوگوں کے لئے ہے محتاج اور نرے نادار اور جو اسے تحصيل کرکے لائيں اور جن کے دلوں کو اسلام سے الفت دی جائے اور گردنيں چھوڑانے ميں اور قرضداروں کو اوراللہ کی راہ ميں اور مسافر کو ۔(التوبۃ:۹ / ۶۰)

علامہ ابو الحسن علی بن ابی بکر مرغينانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ متوفی ۵۹۳ھ فرماتے ہيں:

”(الأصل فيہ قولہ تَعَالٰی : (اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَ الْمَسٰكِیْنِ) الآيۃ، فہذہ ثمانيۃ أصناف، وقد سقط منھا المؤلفۃ قلوبھم،لأن اللہ تَعَالٰی أعزّ الإسلام وأغنی عنھم) وعلی ذلک انعقد الإجماع (والفقير من لہ أدنی شيئ، والمسکين من لا شيء لہ) وھذا مروي عن أبي حنيفۃ رحمہ اللہ؛ وقد قيل علی العکس“

ترجمہ:مصارفِ زکاۃ ميں اصل اللہ تَعَالٰی کا فرمان ہے،( زکوٰۃ تو انہيں لوگوں کے لئے ہے محتاج اور نرے نادار) تو يہ آٹھ مصارف ہيں اور ان مصارف سے اَلْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ، يعنی، جن کے دلوں کو اسلام سے الفت دی جائے، ساقط ہوگيا کيونکہ اللہ تَعَالٰی نے اسلام کو عزّت بخشی اور ان لوگوں سے غنی فرماديا اور اسی پر اجماع ہے۔ فقير وہ ہے جس کے پاس ادنی چيز ہو اور مسکين وہ ہے جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو، يہ فرمان امام اعظم ابو حنيفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، جبکہ (فقير و مسکين کی تعريف ميں) اس کے برعکس بھی فرماياگيا۔(الھدايۃ،کتاب الزکاۃ، باب من يجوز دفع الصدقۃ إليہ ومن لا يجوز،الجزءالاول،جلد1، صفحہ120)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

” لايجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصاباً أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضاً للتجارة أو لغير التجارة فاضلاً عن حاجته في جميع السنة، هكذا في الزاهدي، والشرط أن يكون فاضلاً عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه،۔۔۔ ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحاً مكتسباً،۔۔۔۔ولا يدفع إلى بني هاشم، وهم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد المطلب، كذا في الهداية ۔۔۔۔۔ هذا في الواجبات كالزكاة والنذر والعشر والكفارة، فأما التطوع فيجوز الصرف إليهم، كذا في الكافي“

ترجمہ:اس شخص جو زکاۃ دینا جو مالک نصاب ہو جائز نہیں چاہے نصاب کسی بھی طرح کا مال ہو جیسے دینار یا درھم یا سائمہ جانور،یا تجارت کا سامان ،یا تجارت کے علاؤہ حاجات اصلیہ سے زائد سامان، پورے سال میں اور یہ (حاجات اصلیہ) اس کی رہائش ہے اور رہنے کا سامان اور اسکے کپڑے اور خادم اور اسکی سواری اور اس کے ہتھیار اور اس شخص کو زکاۃ دینا جائز ہے جو نصاب سے کم کا مالک ہو اگرچہ وہ تندرست اور کمانے والا ہو۔ اور اور بنو ھاشم کو زکاۃ دینا جائز نہیں اور یہ علی،عباس،جعفر،عقیل اور حارث بن عبد المطلب کی اولاد ہے ایسے ہی ھدایہ میں ہے یہ (حکم) صدقات واجبہ میں ہے جیسے زکاۃ،نذر،عشر،اور کفارہ بہرحال نفلی صدقہ تو اسے انہیں (غیر مستحقین زکاۃ کو) دینا جائز ہے ایسا ہی کافی میں ہے۔(فتاوی ہندیہ،کتاب الزکاۃ،الباب السابع فی المصرف،جلد1،صفحہ189،دارلفکر،بیروت)

بہار شریعت میں ہے:

”زکاۃ کے مصارف 7 ہیں: فقیر،مسکین،عامل،رقاب،غلام،فی سبیل اللہ،ابن سبیل۔۔۔۔ جو شخص مالک نصاب ہو (جبکہ وہ چیز حاجتِ اصلیہ سے فارغ ہو یعنی مکان، سامان خانہ داری، پہننے کے کپڑے، خادم، سواری کا جانور، ہتھیار،اہلِ علم کے لیے کتابیں جو اس کے کام میں ہوں کہ یہ سب حاجتِ اصلیہ سے ہیں اور وہ چیز ان کے علاوہ ہو، اگرچہ اس پر سال نہ گزرا ہو اگرچہ وہ مال نامی نہ ہو) ایسے کو زکاۃ دینا جائز نہیں ۔۔۔صحیح تندرست کو زکاۃ دے سکتے ہیں ، اگرچہ کمانے پر قدرت رکھتا ہو مگر سوال کرنا اسے جائز نہیں ۔۔۔۔ زکاۃ ادا کرنے میں یہ ضرور ہے کہ جسے دیں مالک بنا دیں ، اباحت کافی نہیں ۔۔۔جن لوگوں کو زکاۃ دینا ناجائز ہے انھیں اور بھی کوئی صدقۂ واجبہ نذر و کفّارہ و فطرہ دینا جائز نہیں ۔۔۔جن لوگوں کی نسبت بیان کیا گیا کہ انھیں زکاۃ دے سکتے ہیں ، اُن سب کا فقیر ہونا شرط ہے، سوا عامل کے کہ اس کے لیے فقیر ہونا شرط نہیں اور ابن السبیل اگرچہ غنی ہو، اُس وقت حکم فقیر میں ہے، باقی کسی کو جو فقیر نہ ہو زکاۃ نہیں دے سکتے۔“(ملخص از:بہار شریعت جلد1،حصہ5،صفحہ930 تا 938،مکتبۃ المدینہ کراچی)

واللہ ورسولہ اعلم باالصواب

کتبہ:

انتظار حسین مدنی کشمیری

مؤرخہ: 8 فروری 2023

اپنا تبصرہ بھیجیں