جمعہ کا خطبہ غیر عربی میں اور اس دوران سنتیں پڑھنا

جمعہ کا خطبہ غیر عربی میں اور اس دوران سنتیں پڑھنا

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس بارے میں کہ جمعہ کے خطبہ سے متعلق سوال عرض ہے کہ یہاں(یورپ میں) جب ہم مسجد پہنچتے ہیں تو امام صاحب تقریر کر رہے ہوتے ہیں انگلش میں، اس کے دوران وہ بیٹھتے ہیں اور پھر کھڑے ہو کر دوبارہ تقریر کر کے جماعت کھڑی کر دیتے ہیں۔ کیا یہ تقریر ہی خطبہ کہلائے گی؟ اور اسکے درمیان سنتیں نہیں پڑھ سکتے؟ پاکستان میں خطبہ عربی میں ہوا کرتا تھا اور تقریر اردو میں الگ، یہاں ایسا نہیں۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

پوچھی گئی صورت میں اگر تو صرف انگلش میں تقریر ہی ہوتی ہے جمعہ کا خطبہ نہیں ہوتا یعنی جمعہ کے خطبہ کے قصد سے انگلش میں تقریر نہیں کی جاتی تو ایسی صورت میں نماز جمعہ ہی نہیں ہوگی؛ اس لئے کہ جمعہ صحیح ہونے کی شرائط میں سے ایک شرط خطبہ ہونا ہے، اور خطیب کے تقریر کے دوران بیٹھنے اور پھر کھڑے ہونےسے زیادہ ظاہر یہی ہے کہ خطبہ تو ہوتا ہے لیکن عربی کے بجائے انگلش میں ہوتا ہے تو چونکہ خطبہ کا عربی زبان میں ہونا سنت متوارثہ، اور اس کا ترک مکروہ ہے، اس لئے خطبہ عربی زبان میں ہی دیا جائے، البتہ اس صورت میں جمعہ ہوجائے گا۔

اور دورانِ خطبہ جمعہ کی سنتیں پڑھنا مکروہِ تحریمی، ناجائز و گناہ ہے، اگر دورانِ خطبہ سنتیں شروع کرلیں، تو توڑنا واجب اور غیر مکروہ وقت میں اس کی قضا کرنا واجب اور اگر مکمل کرلیں تو سنتیں ادا ہوجائیں گی مگر گنہگار ہوگا اور اگر خطبہ سے پہلے شروع کرلیں تھیں تو اب درمیان میں قطع نہ کرے، بلکہ چار رکعتیں مکمل پڑھے۔

ہدایہ شریف میں ہے:

”ومنھا الخطبة“

ترجمہ: جمعہ صحیح ہونے کی شرائط میں سے ایک شرط خطبہ ہونا ہے۔ (ہدایہ، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجمعة، جلد1، صفحہ82، دار احیاء التراث العربی، بیروت)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

”(ومنھا: الخطبه قبلھا) حتی لو صلوا بلا خطبة أو خطب قبل الوقت لم یجز، کذا في “الکافي“

ترجمہ: جمعہ کی شرائط میں سے ایک شرط خطبہ کا نماز سے پہلے ہونا ہے، یہاں تک کہ اگر لوگوں نے بغیر خطبہ کے نماز پڑھی یا وقت سے پہلے خطبہ دے دیا گیا تو نماز جائز نہیں ہوگی، اسی طرح “کافی” میں ہے۔ (فتاوی ہندیہ، کتاب الصلاۃ، الباب السادس عشر فی صلاۃ الجمعة، جلد1، صفحہ146، دار الفکر، بیروت)

فتاوی رضویہ میں ہے:

”خطبہ خاص زبان عربی میں ہونا متوارث ہے، عہد سلف میں بحمد ﷲ ہزارو ں بلاد عجم فتح ہوئے۔ ہزارہا منبر نصب کئے گئے، عامہ حاضرین اہل عجم ہوتے مگر کبھی منقول نہیں کہ سلف صالح نے ان کی تفہیم کے لئے خطبہ جمعہ یا عیدین غیر عربی میں پڑھا یا اس میں دوسری زبان کا خلط کیا، اور سنت متوارثہ کی مخالفت بیشک مکروہ ہے۔“( فتاویٰ رضویہ، جلد 8، صفحہ308 ، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

فتاوی فیض الرسول میں ہے:

”خطبہ صرف اردو میں یا عربی اردو ترجمہ کے ساتھ پڑھنا سنت متوارثہ کے خلاف ہے، اور مکروہ ہے؛ اس لئے کہ حضور سیّد عالم صلی ﷲ علیہ وسلم کے ظاہری زمانۂ مبارکہ سے صحابۂ کرام، تابعین عظام اور أئمہ اعلام رضوان ﷲ علیہم اجمعین کے زمانۂ مبارکہ تک اسلام بے شمار عجمی شہروں میں شائع ہوا۔ مسجدیں بنیں اور منبر نصب ہوئے مگر کبھی عربی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان میں خطبہ فرمانا یا خطبہ میں دو زبانیں ملانا مروی نہ ہوا۔ جس سے ظاہر ہوا کہ خطبہ میں دوسری زبان ملانا سنت متوارثہ کے مخالف اور مکروہ ہے۔“(فتاوی فیض الرسول، باب صلاۃ الجمعۃ، جلد1، صفحہ409، مطبوعہ: شبیر برادرز)

بہار شریعت میں ہے:

”غیر عربی میں خطبہ پڑھنا یا عربی کے ساتھ دوسری زبان خطبہ میں خلط کرنا خلاف سنت متوارثہ ہے۔“(بہار شریعت، جمعہ کا بیان، جلد1، صفحہ769، مطبوعہ: مکتبۃ المدینۃ، کراچی)

در مختار میں ہے:

”ان المسلمين توارثوه فوجب اتباعهم“

ترجمہ: جو چیز مسلمانوں میں توارث سے چلتی آرہی ہو، اس کی پیروی ضروری ہے۔ (در مختار، کتاب الصلاۃ، باب العیدین، جلد3، صفحہ75، دار المعرفۃ، بیروت)

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

”عن ابن عباس و ابن عمر رضي ﷲ عنهما أنهما كانا يكرهان الصلاة والكلام يوم الجمعة بعد خروج الإمام“

ترجمہ: حضرت ابن عباس اور حضرت ابن عمر رضی ﷲ عنہما کے متعلق منقول ہے کہ یہ دونوں جمعہ کے دن امام کے اپنے حجرے سے خطبہ کے لئے نکلنے کے بعد نماز پڑھنے کو مکروہ قرار دیتے تھے۔(مصنف ابنِ ابی شیبہ، کتاب الصلاۃ، فی الکلام اذا صعد الامام المنبر وخطب، جلد4، صفحہ103، رقم: 5340، مطبوعہ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ ﷲ علیہ دوران خطبہ وظیفہ، سُنن، نوافل، اور قضا نماز پڑھنے کے متعلق کئے گئے سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:

”اُس وقت وظیفہ مطلقاً نا جائز ہے، اور نوافل بھی اگر پڑھے گنہگار ہوگا اگر چہ نماز ہوجائے گی، رہی قضا اگر صاحب ترتیب نہیں تو اس کا بھی یہی حکم ہے ورنہ وہ ضرور پہلے قضا اداکرے۔ وﷲ تعالٰی اعلم۔“(فتاوی رضویہ،کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، جلد 8، صفحہ352، مطبوعہ: رضا فائونڈیشن، لاہور)

رد المحتار میں ہے:

”أن صلاة النفل صحيحة مكروهة حتى يجب قضاؤه إذا قطعه، ويجب قطعه وقضاؤه في غير وقت مكروه في ظاهر الرواية ولو أتمه خرج عن عهدة ما لزمه بالشروع“

ترجمہ: (دوران خطبہ) نفل نماز مکروہ ادا ہوگی حتی کہ جب اسے توڑ دے گا تو اس کی قضا واجب ہوگی اور اسے توڑنا اور اس کی غیر مکروہ وقت میں قضا کرنا واجب ہے ظاہرالروایۃ کے مطابق۔ اور اگر اس نے مکمل کر لی تو وہ اس کی ذمہ داری سے نکل جائے گا جو شروع کرنے سے اسے لازم ہوئی تھی۔ (رد المحتار، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، جلد3، صفحہ38، دار المعرفۃ، بیروت)

بحر الرائق میں ہے:

”إذا شرع في الأربع قبل الجمعة ثم افتتح الخطبة أو الأربع قبل الظهر ثم أقيمت هل يقطع على رأس الركعتين تكلموا فيه والصحيح أنه يتم، ولا يقطع؛ لأنها بمنزلة صلاة واحدة واجبة اه“

ترجمہ: جب کسی نے جمعہ سے قبل چار رکعت سنت شروع کردی، پھر امام نے خطبہ شروع کیا یا چار رکعت سنت ظہر قبل جماعت شروع کردی، پھر اقامت کہی گئی تو کیا ان چاروں رکعتوں کو دو رکعتوں پر قطع کردے گا؟ اس کے بارے میں علما کے مختلف اقوال ہیں اور صحیح یہ ہے کہ وہ چار رکعت مکمل کرے اور دو رکعت پر قطع نہ کرے؛ کیونکہ یہ ایک پوری واجب نماز کی طرح ہے۔ (بحر الرائق، جلد2، صفحہ271، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

فتاوی رضویہ شریف میں ہے:

”مصلی ایں دو سنت ہر چہار رکعت اتمام کند اگر چہ ہنوز تحریمہ بستہ است کہ جماعت ظہر یا خطبہ جمعہ آغاز نہادند زیر اکہ ایں ہمہ رکعات ہمچو نماز واحد ست لہذا درقعدہ اولی درود بھیجتےنخواند نہ در شروع ثالثہ ثنا وتعوذ“

ترجمہ: ان دونوں سنتوں (قبل از ظہر و جمعہ) کی چار چار رکعات پوری کرلے اگر چہ خطبہ جمعہ یا ظہر کی جماعت کھڑی ہوجائے ؛ کیونکہ یہ تمام نماز واحد کی طرح ہیں یہی وجہ ہے کہ پہلے قعدہ میں درود اور تیسری رکعت میں ثنا اور تعوذ نہیں پڑھا جاتا۔ (فتاوی رضویہ، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجمعۃ، جلد8، صفحہ132، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

واللہ تعالی أعلم بالصواب

کتبه: ابو معاویہ محمد ندیم عطاری مدنی حنفی

مؤرخہ 14 رجب المرجب 1444ھ بمطابق 06فروری 2023ء، بروز پیر

اپنا تبصرہ بھیجیں