فدیہ و کفارہ میں کس جگہ کا اعتبار ہے؟

فدیہ و کفارہ میں کس جگہ کا اعتبار ہے؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ انگلینڈ میں رہتے ہوئے اپنے ذمہ لازم ہونے والے قسم یا روزے کا کفارہ اور روزے کا فدیہ کسی اور ملک میں ادا کرنا چاہتا ہے، وہ شخص اپنے ذمے مذکورہ واجبات کی ادائیگی کس اعتبار سے کرے؟ جہاں وہ خود ہے یا جہاں ادائیگی کی جائے گی وہاں کے اعتبار سے؟ یعنی یوکے کی کرنسی کے مطابق پیسے دے گا یا پاکستان وغیرہ جس ملک میں ادا کرنا چاہتا ہے اس کا اعتبار ہوگا؟ نیز یوں ایک ملک سے دوسرے ملک یوں پیسے بھیجنا کیسا ہے؟ اپنے ہی ملک میں دینا کیا ضروری ہے؟ برائے کرم! رہنمائی فرمادیں۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

پوچھی صورت میں اگر کوئی شخص انگلینڈ میں رہتے ہوئے اپنے ذمہ لازم ہونے والے قسم یا روزے کا کفارہ اور روزے کا فدیہ کسی اور ملک میں ادا کرنا چاہتا ہے تو وہ اپنے ذمے مذکورہ واجبات کی ادائیگی اس اعتبار سے کرے گا کہ جہاں وہ خود ہے یعنی یوکے کی کرنسی کے مطابق پیسے دے گا۔ ہاں یہ جائز ہے کہ وہ حساب یوکے کی کرنسی کا کرے اور بعد میں اتنی ہی رقم پاکستان کرنسی یا کسی اور ملک کی کرنسی جہاں ادا کرنا چاہتا ہے اس میں تبدیل کرکے ادا کردے۔ یعنی اگر یوکے میں فطرہ کی رقم ایک پونڈ ہے تو وہ ایک پونڈ کو پاکستانی پیسے میں کنورٹ کرکے فطرہ پاکستان میں ادا کرسکتا ہے۔

نیز ایک جگہ سے دوسری جگہ یوں پیسے بھیجنا مکروہ ہے۔ لیکن اگر اس دوسرے جگہ میں اس کے رشتے دار رہتے ہوں یا وہاں کے لوگوں کو زیادہ حاجت ہو یا زیادہ پرہیزگار ہوں یا مسلمانوں کے حق میں وہاں بھیجنا زیادہ فائدے مند ہو یا طالبِ علم کے لیے بھیجے یا درالحرب سے دارالاسلام بھیجے تو ان سب صورتوں میں دوسرے ملک بھی بلا کراہت بھیجنا جائز ہے۔لہٰذا یوکے سے پاکستان پیسے بھیجنا بالکل درست ہے۔

ہدایہ میں ہے:

” فيعتبر في الصرف مكان المحل لا مكان الفاعل اعتبارا بها، بخلاف صدقة الفطر لأنها لا تسقط بهلاك المال بعدما طلع الفجر من يوم الفطر“

ترجمہ: ادائیگی میں محل کے مکان کا اعتبار ہوگا نہ کہ فاعل کے مکان کا زکوۃ پر قیاس کرتے ہوئے، برخلاف صدقہ فطرکے، کیونکہ یوم عیدالفطر کی فجرطلوع ہونے کے بعد مال کے ہلاک ہونے سے یہ ساقط نہیں ہوتا۔(الھدایۃ، کتاب الاضحیۃ، اخیرین، ص446، مطبوعہ لاہور، پاکستان)

بنایہ شرح ہدایہ میں ہے:

”(بخلاف صدقة الفطر)حيث يعتبر فيها مكان الفاعل وهو المؤدي(لأنها لا تسقط بهلاك المال بعد ما طلع الفجر من يوم الفطر) فحينئذ يعتبر مكان صاحب الذمة وهو المؤدي“

ترجمہ: (برخلاف صدقہ فطرکے) کہ اس میں فاعل کے مکان کا اعتبار ہے اور فاعل سے مراد ادا کرنے والا ہے، کیونکہ یوم عیدالفطر کی فجر طلوع ہونے کے بعد مال کے ہلاک ہونے سے یہ ساقط نہیں ہوتا، لہذا ایسی صورت میں جس کے ذمہ صدقہ فطر لازم ہے، اس کے مکان کا اعتبار ہوگا اور وہ ہے ادا کرنے والا۔(البنایۃ شرح الهدایۃ، کتاب الاضحیۃ، جلد11، صفحہ27-28، کوئٹہ، پاکستان)

خزانة المفتین میں ہے”إذا وجبت صدقة الفطر بسبب ولده يعتبر مكانه، ورجح محل الوجوب، وعليه الفتوى“

ترجمہ: جب صدقہِ فطر اس کی ولادت کے سبب واجب ہوا تو اس کی رہائش کا اعتبار ہوگا، اور وجوب کے محل ترجیح دی جائے گی اور اسی پر فتویٰ ہے۔(كتاب الزكاة، فصل في صدقة الفطر، صفحہ961، مکتبہ شاملہ)

محیط برہانی میں ہے:

”ويؤدي صدقة الفطر عن نفسه وعبيده حيث هو، وفي زكاة المال، وهذا قول محمد“

ترجمہ: اور وہ صدقہِ فطر اپنی طرف سے اور اپنے غلام کی طرف سے جہاں وہ خود ہے اور یہی حکم مال کی زکوٰۃ میں بھی ہے، یہ قول امام محمد علیہ الرحمہ کا ہے۔(محیط برہانی، كتاب الصوم، الفصل الثالث عشر في صدقة الفطر، جلد2، صفحہ412، دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

” وفي صدقة الفطر يعتبر مكانه لا مكان أولاده الصغار وعبيده في الصحيح كذا في التبيين. وعليه الفتوى كذا في المضمرات“

ترجمہ: مذہب صحیح میں صدقہ فطر جس کے ذمہ لازم ہے، اس کی رہائش کا اعتبار کیا جائے گا، اس کی نابالغ اولاد کی رہائش کا اعتبار نہیں کیا جائے گا جیساکہ تبیین الحقائق میں ہے اور اسی قول پر فتویٰ ہے جیساکہ مضمرات میں ہے۔(فتاوی عالمگیری، كتاب الزكاة، الباب السابع في المصارف ،جلد1،صفحہ190،مطبوعہ دار الفكر، بيروت، لبنان)

فتاوی فیض الرسول میں سوال ہوا کہ:

” زید بمبئی میں ہے اور اس کے بچے وطن میں ہیں، تو ان کے صدقہ فطر کے گیہوں کی قیمت وطن کے بھاؤ سے ادا کرے یا بمبئی کے بھاؤ سے؟ اور زیورات جن کا وہ مالک ہے وہ وطن میں ہیں تو زکوۃ کی ادائیگی میں کہاں کا اعتبار ہے؟

اس کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:” بچے اور زیورات جب کہ وطن میں ہیں، تو صدقہِ فطر کے گیہوں میں بمبئی کی قیمت کا اعتبار کرنا ہوگا اور زیورات میں وطن کی قیمت کا، لانہ یعتبر فی صدقۃ الفطر مکان المودی وفی الزکوۃ مکان المال، ھکذاقال صاحب الھدایۃ فی کتاب الاضحیۃ۔“(فتاوی فیض الرسول، جلد1، صفحہ511، شبیر برادرز، لاہور، پاکستان)

درمختار میں ہے

’’کرہ نقلھا إلا إلی قرابۃ أو أحوج أو أصلح أو أورع أو أنفع للمسلمین أو من دار الحرب إلی دار الإسلام أو إلی طالب علم‘‘

ترجمہ:زکوٰۃ کی رقم کا دوسری جگہ منتقل کرنا مکروہ ہے مگر اس صورت میں جب دوسرے مقام پر رشتہ دار یا زیادہ محتاج یا زیادہ صالح ہو یا مسلمانوں کا زیادہ نفع ہے یادار الحرب سے دار الاسلام کی طرف منتقل کی جائے یا دوسری جگہ طالب علم ہو۔(درمختار، کتاب الزکوۃ، جلد2، صفحہ354، در الفکر، بیروت)

بہار شریعت میں زکوٰۃ کی ادائیگی دوسرے شہر میں کرنے سے متعلق فرماتے ہیں:

” دوسرے شہر کو زکاۃ بھیجنا مکروہ ہے، مگر جب کہ وہاں اُس کے رشتے والے ہوں تو اُن کے لیے بھیج سکتا ہے یا وہاں کے لوگوں کو زیادہ حاجت ہے یا زیادہ پرہیزگار ہیں یا مسلمانوں کے حق میں وہاں بھیجنا زیادہ نافع ہے یا طالبِ علم کے لیے بھیجے یا زاہدوں کے لیے یا دارالحرب میں ہے اور زکاۃ دارالاسلام میں بھیجے یا سال تمام سے پہلے ہی بھیج دے، ان سب صورتوں میں دوسرے شہر کو بھیجنا بلاکراہت جائز ہے۔“(بہار شریعت، جلد1، حصہ5، صفحہ 939، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی، پاکستان)

واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ اعلم باالصواب

کتبہ

محمد منور عطاری مدنی

بتاریخ: 20 فروری 2023

اپنا تبصرہ بھیجیں