عطیات میں سے کچھ رقم چوری ہوجائے
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان دین اس بارے میں کہ ایک شخص نے پچاس ہزار روپے مختلف لوگوں سے زکوٰۃ کے واسطے اکٹھے کئے اس میں سے پانچ ہزار چوری ہوگئے اب یہ پتہ نہیں چل سکتا کہ یہ کس زکوٰۃ والے کے تھے تو ایسی صورت میں کیا سب کی زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی یا کیا صورت بنے گی؟
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعوان الملک الوھاب اللھم ھدایہ الحق والصواب
صورتِ مسئولہ میں حکم شرعی یہ ہے کہ چوری ہونے والی اور بچ جانے والی دونوں قسم کی رقم تمام زکوۃ دینے والوں کے درمیان حصہ رسد منقسم ہوگی مثلاً اگر پانچ بندوں نے دس دس ہزار رقم جمع کرائی تھی تو اب یہ کہا جائے گا کہ ہر ایک کا ایک ایک ہزار چوری ہوگیا اور نو نو ہزار باقی بچ گئے ۔ اور اب اگر وکیل یونہی زکوۃ ادا کر دے گا تو ہر ایک کی زکوۃ میں ایک ہزار روپے کی کمی واقع ہوگی۔اور یہ چوری اگر جمع کرنے والے کی غفلت ، کوتاہی یا تعدی کے بغیر ہوئی تو اس پر تاوان بھی لازم نہیں آئے گا کیونکہ یہ اس کے پاس امانت تھی اور امانت بغیر تعدی و کوتاہی کے ضائع ہو جائے تو تاوان لازم نہیں آتا۔
بدائع الصنائع میں ہے
”والوضیعة علی قدر المالین متساویا ومتفاضلا “
اور نقصان ان دونوں کے مال کے بقدر ہوگا چاہے وہ برابر ہو یا کم یا زیادہ ہو ۔( بدائع الصنائع ،کتاب الشرکہ ،جلد 4، صفحہ 64 ،دار الکتب العلمیہ، بیروت )
فتاویٰ ھندیہ میں ہے
”وإن قل رأس مال أحدهما وكثر رأس مال الآخر واشترطا الربح بينهما على السواء أو على التفاضل فإن الربح بينهما على الشرط، والوضيعة أبدا على قدر رءوس أموالهما، كذا في السراج الوهاج“
ترجمہ: اگر ان میں سے ایک کا رأس المال (سرمایہ) کم ہو اور دوسرے کا زیادہ اور دونوں نے آپس میں نفع کی برابری یا زیادہ کی شرط لگائی تو نفع ان کے درمیان طے شدہ حساب سے ہوگا اور نقصان ان کے مالوں کی مقدار کے لحاظ سے ڈالا جائے گا جیسا کہ سراج الوھاج میں ہے۔ (فتاویٰ ہندیہ ،جلد 2،صفحہ320، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
رد المحتار میں ہے
’’و ما کان من وضیعۃ او تبعۃ فکذلک (ای علی قدر رؤوس اموالھما“
اور (شرکت میں) جو کچھ نقصان اور تاوان ہوگا ،تو وہ اسی طرح ہوگا یعنی ان کے مالوں کی مقدار کے مطابق ہوگا۔(رد المحتار مع الدرالمختار،جلد 6،صفحہ469،مطبوعہ کوئٹہ)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:
” لاجرم عقل ہو تو یہی ماننا پڑے گا کہ جس سال ہزار نفع کے ہوں گے سب دس دس پائیں اور پانسو تو سب پانچ پانچ اور دو ہزار تو سب بیس بیس ، اور کچھ نہ ہو تو کوئی کچھ نہیں ، اور نقصان ہو تو سب پر حصہ رسد۔ یہی عدل ہے اور یہی مقتضائے شرکت ، اور یہی شرکت شرعیہ ، اور وہ نفع منقح رجماً بالغیب ٹھہرالینا محض جہل و حماقت تھا، بالجملہ شرع مطہر سے آنکھ بند کرنا شر ہی لاتا ہے ، خیرہمہ تن خیر وہی ہے جو شرع مصطفی ہے صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم۔“(فتاوی رضویہ،جلد17،صفحہ374،رضافاؤنڈیشن،لاہور)
ردالمختار میں ہے
”ولاتضمن بالھلاک من غیر تعد وشرط الضمان باطل“
تعدی کے بغیر ہلاک پر ضمان نہ ہوگا اور ضمان کی شرط باطل ہے۔(ردالمختار ،جلد 6 ،صفحہ 489، مطبوعہ، کوئٹہ)
فتویٰ رضویہ میں ہے:
”اگر زید نے دیگ حفاظت کے مکان میں رکھی ہے جہاں وہ اپنے برتن وغیرہ رکھتا ہے تو اس پر الزام نہیں اور اس سے تاوان لینا جرم ہے۔ ہاں اگر بے خیالی بے پروائی کی ہو غیر محفوظ مکان میں رکھی باہر چھوڑی ہو، تو اس صورت میں زید کو ضرور اس کی قیمت دینی آئے گی۔“(فتویٰ رضویہ ،جلد 19 ،صفحہ 159 ،رضا فائونڈیشن ،لاہور)
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
کتبہ
ممبر فقہ کورس
28ربیع الآخر 1445ھ13نومبر 2023ء
نظر ثانی و ترمیم:
مفتی محمد انس رضا قادری