بارہویں شریف کا چندہ اگر بچ جائے
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ گیارہویں شریف یا میلاد وغیرہ کی محافل کے لیے چندہ جمع کیا اور کچھ رقم بچ گئی تو اس کا کیا کیا جائے؟
بسم الله الرحمن الرحيم
الجواب بعون الملك الوهاب اللهم هداية الحق والصواب
چندہ جس مقصد کے لیے جمع کیا جائے، خاص اسی کام میں خرچ کرنا ضروری ہوتا ہے ، اسے کسی دوسرے کام میں خرچ نہیں کر سکتے، لہذا گیارہویں شریف یا میلاد کی محافل وغیرہ کے لیے چندہ جمع کیا اور بچ گیا، تو اسے کسی دوسرے مقصد میں استعمال نہیں کر سکتے ، بلکہ ضروری ہے کہ اگر دینے والے زندہ ہوں تو ان کو اور اگر ان کا انتقال ہوگیا ہوتو ان کے ورثا کو حصۂ رسد یعنی ان کے حصوں کے مطابق ہر ایک کو دے دیں یا جس کام میں خرچ کرنے کی وہ اجازت دیں، اس میں خرچ کیا جائے، البتہ اگر ورثا بھی معلوم نہ ہوں، تو بچ جانے والی وہ رقم مثلِ مالِ لقطہ ہے اور کسی بھی نیک و جائز کام، مثلاً: کسی محفل یا مسجد و مدرسہ میں بھی خرچ کر سکتے ہیں اور کسی فقیر پر بھی صدقہ کر سکتے ہیں۔
نوٹ (اس آزمائش سے بچنے کا آسان حل یہ ہے کہ چندہ جمع کرتے وقت لوگوں سے اس بات کی صراحتاً اجازت لے لی جائے کہ جو رقم بچے گی وہ ہم مسجد کے چندے میں شامل کردیں گے)
فتاوی امجدیہ میں ہے:
”دینے والے جس مقصد کے لیے چندہ دیں یا کوئی اہل خیر جس مقصد کے لیے اپنی جائیداد وقف کرے، اسی مقصد میں وہ رقم یا آمدنی صرف کی جاسکتی ہے۔ دوسرے میں صرف کرنا، جائز نہیں، مثلاً: اگر مدرسہ کےلیے ہو، تو مدرسہ پر صرف کی جائے اور مسجد کے لیے ہو، تو مسجد پر۔“(فتاوی امجدیه ، ج3، ص42، مطبوعه مکتبہ رضویہ، کراچی)
فتاوی مصطفویہ میں ہے:
”یہ ہرگز جائز نہیں چندہ کا روپیہ چندہ دینے والوں کا ہے یہ امین ہے جس نیک کام کے لیے انہوں نے دیا ہے دیانت کے ساتھ اسے اس میں صرف کرے اور صرف نہ ہو تو لازم جس جس سے جتنا جتنا لیا ہر ایک کو اتنا اتنا واپس دے یا ان کی اجازت ہوتو کسی اور جائز کام میں صرف کرے اگر کسی کام کے لیے لوگوں سے چندہ لیا اس میں صرف کر کے کچھ بچ رہا اور کام ختم ہو گیا تو حساب کرکے حصہ رسد واپس دے۔“(فتاوی مصطفویہ،ص444 مطبوعہ شبیر برادرز اردو بازار لاہور)
فتاوی رضویہ میں سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں:
”چندہ جس کام کے لیے کیا گیا ہو ، جب اس کے بعد بچے، تو وہ انہیں کی ملک ہے، جنہوں نے چندہ دیا ہے” کما حققناہ فی فتاونا“ (جیسا کہ ہم نے اس کی تحقیق اپنے فتاوی میں کی ہے ) ان کو حصہ رسد واپس دیا جائے یا جس کام میں وہ کہیں ، صرف کیا جائے اور اگر دینے والوں کا پتا نہ چل سکے کہ ان کی کوئی فہرست نہ بنائی تھی ، نہ یاد ہے کہ کس کس نے دیا اور کتنا دیا؟ تو وہ مثل مال لقطہ ہے ، اسے مسجد میں صرف کر سکتے ہیں۔“(فتاوی رضویہ، ج16، ص247، رضا فاؤنڈیشن، لاهور)
فتاوی رضویہ میں سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ مزید فرماتے ہیں:
”چندہ کا روپیہ چندہ دینے والوں کی ملک رہتا ہے ، جس کام کے لیے وہ دیں ، جب اس میں صرف نہ ہو ، تو فرض ہے کہ انہی کو واپس دیا جائے یا کسی دوسرے کام کے لیے وہ اجازت دیں، ان میں جو نہ رہا ہو، ان کے وارثوں کو دیا جائے یا ان کے عاقل بالغ جس کام میں اجازت دیں، ہاں جو ان میں نہ رہا اور ان کے وارث بھی نہ رہے یا پتا نہیں چلتا یا معلوم نہیں ہو سکتا کہ کس کس سے لیا تھا، کیا کیا تھا، وہ مثل مال لقطہ ہے ، مصارف خیر مثل مسجد اور مدرسہ اہل سنت و مطبع اہل سنت وغیر ہ میں صرف ہو سکتا ہے۔ وھو تعالی اعلم۔“(فتاوی رضویہ، ج23، ص563، رضا فاؤنڈیشن، لاهور)
واللہ و رسولہ اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کتبہ
بابر عطاری مدنی اسلام آباد
14ربیع الاول1445/ 2اکتوبر2023