گھروں اور دوستوں میں شرط لگا کر کھیلنے کی شرعی حیثیت

گھروں اور دوستوں میں شرط لگا کر کھیلنے کی شرعی حیثیت

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ آجکل گھرو ں میں یا باہر دوستوں وغیرہ میں کوئی سے بھی گیم کھیلتے ہوئے یہ شرط لگائی جاتی ہے کہ جو ہار گیا وہ فلاں چیز کھلائے گا یا پیسے دے گا ، یونہی دوکانوں میں جاکرسنوکر،کیرم بورڈ اور دیگر گیمز کھیلنا کہ جو ہارے گا وہ گیم کھیلنے کی اجرت دے گا ،ان سب کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا یوں شرط لگا کر کھیلنا جائز ہے اور جو جیتے اس کا یوں پیسے لینا یا دوکاندار کا یوں اجرت لینا جائز ہے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب

بیان کی گئی صورتیں ناجائز و جواہیں کہ اس میں اپنے مال کو خطر پر پیش کرنا ہے اور یہی جوے کی تعریف ہے۔لہذا گھر ہویا باہر ہر صورت یوں شرط لگا کر کھیلنا جائز نہیں اور دوکانداروں کا بھی اس طرح کے کاروبار کرنا اور یوں اجرت لینا جائز نہیں۔

شمس الائمہ علامہ ابو بکر محمد بن احمدبن ابی سہل سرخسی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں

”تعلیق استحقاق المال بالخطر قمار، والقمار حرام فی شریعتنا“

ترجمہ:مال کے استحقاق کو خطرے کے ساتھ معلق کرنا جوا ہے،اور جوا ہماری شریعت میں حرام ہے۔( المبسوط للسرخسی،کتاب الاباق،جلد11،صفحہ18،دار المعرفة ،بيروت)

امیر اہل سنت مولانا محمد الیاس عطارقادری دامت برکاتہم العالیہ اپنی کتاب”غیبت کی تباہ کاریاں“میں فرماتے ہیں:

”ہمارے یہاں مختلف کھیل مَثَلاًگُھڑ دَوڑ ،کرکٹ،کَیرم ،بِلیرڈ ،تاش ، شطرنج وغیرہ دو طرفہ شرط لگا کر کھیلے جاتے ہیں کہ ہارنے والا جیتنے والے کواتنی رقم یا فُلاں چیز دے گا یہ بھی جوا ہے اور ناجائز وحرام ۔کیرم اوربِلیرڈ کلب وغیرہ میں کھیلتے وَقت عُمُوماً یہ شرط رکھی جاتی ہے کہ کلب کے مالک کی فیس ہارنے والا ادا کریگا ،یہ بھی جُوا ہے ۔بعض ”نادان“گھروں میں مختلف کھیلوں مَثَلاً تاش یالوڈو پردوطرفہ شرط لگاکر کھیلتے ہیں اور کم علمی کے باعِث اِس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے وہ بھی سنبھل جائیں کہ یہ بھی جُوا ہے اورجُوا حرام ا ور جہنَّم میں لے جانے والا کام ہے۔“ (غیبت کی تباہ کاریاں،صفحہ190،مکتبۃ المدینہ ،کراچی)

مفتی قاسم صاحب دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں:

” گھروں یا دفتروں میں چھوٹی موٹی باتوں پر جو اس طرح کی شرطیں لگتی ہیں کہ اگر میری بات درست نکلی تو تم کھانا کھلاؤ گے اور اگر تمہاری بات سچ نکلی تو میں کھانا کھلاؤں گا یہ سب جوئے میں داخل ہیں۔“ (صراط الجنان،جلد1،صفحہ337،مکتبۃ المدینہ ،کراچی)

اس مسئلہ میں ایک اشکال یہ آتا ہے کہ سنوکر ،کیرم وغیرہ میں رقم جیتنے والے نے نہیں لینی بلکہ کسی تیسرے شخص دوکاندار نے لینی ہے تو کیا پھر بھی یہ صورت ناجائز ہوگی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہارنے سے والے سے رقم تیسر ابھی لے، تب بھی ناجائز و ہی ہوگا۔ اس مسئلہ کی نظیر محلل والی صورت ہے کہ اگر دو بندوں نے گھوڑدوڑ میں شرط لگائی کہ جو ہم میں سے ہارے گا وہ پیسے دے گا تو یہ جوا ہے ،اگر کسی تیسرے محلل کو شامل کرلیا کہ یہ ہارے گا تو پیسے نہیں دے گا اوردونوں سے جیت گیا ، دونوں اسے دیں گے تویہ جائز ہے۔لیکن محلل کے لیے شرط ہے کہ وہ ایسا ہو جس کا گھوڑا ہارنے اور جیتنے دونوں کا احتمال رکھتا ہو اگر اس کا جیتنا یقینی ہو تو صورت ناجائز ہوگی۔ مذکورہ مسئلہ میں ایک تو تیسرا شخص محلل نہیں ،دوسرا یہ کہ اس کو دونوں میں سے کسی ایک کا پیسے دینا یقینی ہے اس لیے حرام ہے۔

درمختار میں ہے

”(وحرم لو شرط) فيها (من الجانبين) لأنه يصير قمارا (إلا إذا أدخلا ثالثا) محللا (بينهما) بفرس كفء لفرسيهما يتوهم أن يسبقهما وإلا لم يجز“

ترجمہ:حرام ہے اگر شرط دونوں جانب سے ہو ،اس لیے کہ یہ قمار ہوجائے گا،سوائے اس کے کہ کسی تیسرے محلل کوداخل کرلیا جائے ایسے گھوڑے کے ساتھ جو ان دونوں کے گھوڑوں جیسا ہو،یہ وہم ہو کہ دونوں سے آگے نکل جائے گا ورنہ جائز نہیں۔(درمختار مع ردالمحتار، كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع،جلد6،صفحہ403، دارالفکر،بیروت)

بہارشریعت میں ہے:

”محلل کے لیے یہ ضرور ہے کہ اس کا گھوڑا بھی انھیں دونوں جیسا ہو یعنی ہوسکتا ہے کہ اس کا گھوڑا آگے نکل جائے یا پیچھے رہ جائے دونوں باتوں میں سے ایک کا یقین نہ ہو اور اگر اس کا گھوڑا ان جیسا نہ ہو معلوم ہو کہ وہ پیچھے ہی رہ جائے گا یا معلوم ہو کہ یقینا آگے نکل جائے گا تو اس کے شامل کرنے سے شرط جائز نہ ہوگی۔“ (بہارشریعت،حصہ16،صفحہ608،مکتبۃ المدینہ ،کراچی)

ردالمحتار میں ہے

”(قوله وإلا لم يجز)أي إن كان يسبق أو يسبق لا محالة لا يجوز لقوله صلى الله عليه وسلم «من أدخل فرسا بين فرسين وهو لا يأمن أن يسبق فلا بأس به ومن أدخل فرسا بين فرسين وهو آمن أن يسبق فهو قمار»“

ترجمہ: صاحب درمختار کا یہ قول کے ورنہ جائز نہیں یعنی اگرمحلل کے پیچھےرہنے یا جیتنے کا یقین ہو تویہ جائز نہیں،نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کے سبب :جس نے دو گھوڑوں کے درمیان اپنا گھوڑا داخل کیا اور یہ امید نہ رکھتا ہو کہ وہ جیت جائے گا تو حرج نہیں اور اگردوگھوڑوں میں گھوڑاداخل کیا اور وہ یقین رکھتا ہے کہ جیت جائے گا تو یہ جوا ہے۔ (ردالمحتار،كتاب الحظر والإباحة،فصل في البيع،جلد6،صفحہ403،دارالفکر،بیروت)

حاشیۃ الشرنبلالی میں ہے

”(قوله: إلا إذا أدخلا ثالثا بينهما) أي وفرسه كفؤ لفرسيهما ولو لم يكن مثلهما لا يجوز لأنه لا فائدة في إدخاله بينهما فلا يخرج من أن يكون قمارا، كذا في الاختيار “

ترجمہ:ان کا قول کہ جب تیسرا ان دونوں کے درمیان داخل کردیا جائے: یعنی محلل کا گھوڑا ان دونوں کے گھوڑوں کے ہم پلہ ہو ۔اگراس کا گھوڑا ان دونوں کی مثل نہیں تو یہ جائز نہیں ہوگا کہ اس کے داخل کرنے کا فائدہ نہیں تو یہ قمار ہونے سے نہیں نکلے گا جیسا کہ اختیار میں ہے۔ (حاشیۃ الشرنبلالی،اللعب بالشطرنج والنرد وکل لہو،جلد1صفحہ321،دار إحياء الكتب العربية)

یونہی البنایہ میں ہے

”فلهذا يشترط أن يكون فرس المحلل أو بعيره مكافئا لفرسهما أو بعيرهما، وإن لم يكن مكافئا بأن كان أحدهما أبطأ: فهو قمار “(البنایہ شرح الہدایۃ،اللعب بالشطرنج والنرد،جلد12صفحہ254،دارالکتب العلمیۃ،بیروت)

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبہ

ابو احمد مفتی محمد انس رضا قادری

15 شوال المکرم 1444 ھ/06 مئی 2023 ء

  

اپنا تبصرہ بھیجیں