کسی کے آنے پر نعرہ تکبیر کہنا

کسی کے آنے پر نعرہ تکبیر کہنا

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے ہاں محافل میں جب کسی عالم دین یا پیر صاحب کی آمد ہوتی ہے تو مقرر حضرات ان کی آمد پر نعرہ تکبیر لگاتے ہیں ،لوگ نعرہ تکبیر کے جواب میں ”اللہ اکبر“کہتے ہیں۔کیا یوں کرنا درست ہے؟

─── ◈☆◈ ───

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب

محافل میں کسی صحیح العقیدہ غیر فاسق عالم کی آمد پرنعرہ تکبیر ورسالت وغیرہ بلند کرنااگرخوشی اور جو ش و جذبے کے اظہار کے طور پر ہوتو جائز ہے۔اگر کسی کا اس نعرہ سے مقصد خوشی و جوش جذبہ نہ ہو بلکہ اعلان کرنا ہو تاکہ لوگوں کو آمد کا پتہ چل جائے اور وہ اس کے لیے راستہ چھوڑ دیں ،تویہ ناجائز ہوگا۔

جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسلام قبو ل کیا تو مسلمانوں نے جوش اور خوشی میں نعرہ تکبیر بلند کیا چنا نچہ مسند البزار، جلد1، صفحہ400، حلیۃ الاولیا ء، جلد1،صفحہ41،کنز العمال،جلد12،صفحہ778 اور فضائل الصحابۃ لاحمد ابن حنبل میں ہے

”فکبرالمسلمون تکبیرۃ سمعت فی طرق مکۃ“

ترجمہ: تو مسلمانوں نے اتنی بلند آواز سے تکبیر کہی جو مکہ کے راستوں میں سنی گئی ۔(فضائل الصحابۃلاحمدابن حنبل،اسلام عمر بن خطاب ،جلد1،صفحہ285، مؤسسۃ الرسالۃ،بیروت)

بلکہ خاص آمد پر نعرہ لگانے کے حوالے سے یہ روایت موجود ہے کہ جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینے میں آمد ہوئی تو انصار نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پرخوشی وجوش میں نعرہ تکبیر بلند کیا چنانچہ الطبقات الکبری میں ہے

”فلما أحرقتھم الشمس رجعوا إلی بیوتھم فإذا رجل من الیھود یصیح علی أطم بأعلی صوتہ یا بنی قیلۃ ھذا صاحبکم قد جاء. فخرجوافإذا رسول اللہ وأصحابہ الثلاثۃ فسمعت الرجۃ فی بنی عمرو بن عوف والتکبیروتلبس المسلمون السلاح“

ترجمہ: تو جب انصار کو سورج کی گرمی پہنچی تو وہ اپنے گھروں کو لوٹ گئے پس اسی وقت ایک یہودی نے ٹیلے پر کھڑے ہو کر بلند آواز سے پکارا کہ اے قیلہ والو!تمہارے محتر م صاحب آچکے ہیں تو وہ اپنے گھروں سے نکلے تو دیکھا کہ رسول اللہ علیہ وسلم اور ان کے تین صحابہ تشریف لاتے تھے تو بنی عمرو بن عوف میں نعرہ تکبیر کی گونج سنی گئی اور مسلمان اسلحہ پہن کر استقبال کے لئے آگئے ۔ (الطبقات الکبری،جلد1،صفحہ 180، دارا لکتب العلمیہ،بیروت)

مسند ابی حنیفہ میں ہے

”دخل أبو حنيفة على أمير المؤمنين أبي جعفر، فكبر الناس “

ترجمہ:امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ مؤمنین کے امیر ابو جعفر کےپاس داخل ہوئے تو لوگوں نے تکبیر کہی۔ (مسند ابی حنیفۃ روایۃ ابی نعیم،ومن اخبارہ،صفحہ23،مکتبہ الکوثر،الریاض)

اسی طرح امام ابن سیرین کے حوالے سے کتب میں یہ موجود ہے کہ جب یہ بازار میں تشریف لاتے تھے تو لوگ ان کی آمد پر تکبیر کہا کرتے تھے چنانچہ تاریخ دمشق ،جلد53،صفحہ211، المجالسۃ وجواہر العلم میں حضرت ابو عوانہ رضی اللہ عنہ کا یہ قول موجود ہے

”یقول رأیت محمد بن سیرین دخل السوق فکبر الناس“

ترجمہ: وہ فرماتے ہیں میں نے محمد بن سرین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا کہ وہ بازار میں داخل ہوئے تو لوگوں نے تکبیر کہی۔ (المجالسۃ وجواہر العلم،جلد5،صفحہ298، دار ابن حزم ،لبنان)

سیدی اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے سفر”جبل پور“کا نقشہ کھینچتے ہوئے مولاناظفر الدین بہاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :”اہل ِ جبل پور کے ہجوم کا یہ عالم تھا کہ جس طرف نظر پڑتی تھی آدمی ہی آدمی نظر آرہا تھا تمام پلیٹ فارم اور پل اور پلیٹ فارم کے بالمقابل لین کے کنارے اور مسافر خانے اور بیرون اسٹیشن کھچا کھچ بھرا تھا گاڑی پہنچتے ہی چاروں طرف سے نعرہ تکبیر ورسالت سے سارا اسٹیشن گونج گیا۔“ (حیاتِ اعلی حضرت ،جلد1،صفحہ461، کشمیرانٹرنیشنل پبلیشرز،اردوبازار،لاہور )

تو ان تمام دلائل سے ثابت ہوا کہ خوشی وجذبے کی کیفیت میں نعرہ تکبیر ورسالت بلند کرنا جائز ہے اگرچہ وہ خوشی وجذبے کی کیفیت کسی کی آمد کے نتیجے میں ہی ہو ۔

باقی کسی کی آمد کے اعلان پر نعرہ لگانا کہ لوگ کھڑے ہوجائیں اور راستہ چھوڑ دیں تو بطور اعلام تسبیح یا درود پڑھنے کی ممانعت پرہندیہ اور ردالمحتار میں ہے

” (قوله وحراما إلخ) الظاهر أن المراد به كراهة التحريم، لما في كراهية الفتاوى الهندية إذا فتح التاجر الثوب فسبح الله تعالى أو صلى على النبي صلى الله عليه وسلم يريد به إعلام المشتري جودة ثوبه فذلك مكروه۔۔۔ يمنع إذا قدم واحد من العظماء إلى مجلس فسبح أو صلى على النبي صلى الله عليه وسلم إعلاما بقدومه حتى يفرج له الناس أو يقوموا له يأثم. اه. “

ترجمہ:صاحب در مختار کا حرام فرمانا،ظاہر ہے کہ اس سے مراد مکروہ تحریمی ہے۔کیونکہ فتاویٰ ہندیہ میں کراہیت کے باب میں ہے کہ جب تاجر کپڑا کھولے اور اللہ عزوجل کی تسبیح اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود اس مقصد کے لیے پڑھے کہ خریدنے والے پر کپڑے کی عمدگی ظاہر ہو تو یہ مکروہ ہے۔ منع ہے کہ جب کوئی معزز شخصیت مجلس میں آئے تو اس کے لیے تسبیح یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھا جائے تاکہ لوگوں کو اس کے آنے کی خبر ہو اور لوگ اس کے لیے راستہ چھوڑیں اور کھڑے ہوں ،تو وہ گناہگارہوگا۔(ردالمحتار،باب صفۃ الصلوٰۃ، فروع قرأ بالفارسية أو التوراة أو الإنجيل ،جلد1،صفحہ518،دارالفکر،بیروت)

فتاویٰ بزازیہ اوربریقۃ محمودیہ میں ہے

” يمنع إذا قدم أحد من العظماء إلى مجلس فسبح أو صلى على النبي عليه الصلاة والسلام إعلاما بقدومه حتى يفرج له الناس أو يقوموا له يأثم لأنه جعل اسم الله تعالى وصلاته على رسوله وسيلة إلى تعظيم الغير واستحلال هذا الصنيع واعتقاده عبادة لا خفاء أنه هائل عظيم وأما العالم إذا قال في مجلس العلم صلوا أو الغازي إذا قال كبروا فيثاب “

ترجمہ:منع ہے کہ جب کوئی معزز شخصیت مجلس میں آئے توکوئی شخص اس کے لیے تسبیح یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھے تاکہ لوگوں کو اس کے آنے کی خبر ہو اور لوگ اس کے لیے راستہ چھوڑیں اور کھڑے ہوں تو وہ گناہگار ہوگا،کیونکہ اس میں اللہ عزوجل کے نام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود کو غیر کی تعظیم کے لیے وسیلہ بنایا گیا ہے۔اس عمل کو حلال سمجھنا اور عبادت شمار کرنا ، کوئی شک نہیں کہ یہ بہت بڑی جر¬¬أت ہے۔باقی عالم اگر مجلس میں کہے کہ درود پڑھو یا غازی تکبیر پڑھنے کا کہے تو ثواب پائے گا۔ (بریقۃ محمودیۃ، المبحث الثالث فيما الأصل فيه الإذن من العادات التي يتعلق بها النظام للعالم ،جلد4،صفحہ37،مطبعۃ الحلبی)

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبہ

ابو احمد مفتی محمد انس رضا قادری

11رجب المرجب1444ھ ۔03 فروری 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں