مزارات پر چادر کی شرعی حیثیت

مزارات پر چادر کی شرعی حیثیت

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ بزرگا ِ دین کے مزارات پر غلاف ڈالنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب

شریعتِ مطہرہ میں قبروں پر چادر و غلاف چڑھانا بلاشبہ جائز اور اچھا عمل ہے کیونکہ اس سےصاحبِ مزار کی تعظیم و عظمت کا اظہار ہوتا ہے۔البتہ اگر قبر پر ایک چادر چڑھی ہے اور ابھی وہ خراب یا پرانی نہیں ہوئی تو بغیر ضرورت اس کو بدلنا یا اس پر دوسری چادر چڑھانا درست نہیں۔ ایسی صورت میں بہتر یہ ہے کہ جو رقم چادر میں خرچ کرنی ہو اس کے بدلے صاحب مزار کے ایصال ثواب کے لیے کسی ضرورت مند کو وہ رقم دے دی جائے ۔ ہاں جہاں ایسا معمول ہو کہ چڑھائی ہوئی چادر جب ضرورت سے زیادہ ہو تو خادمین ، مساکین، ضرورت مند لے لیتے ہیں اور اس نیت سے چڑھائی جائے تو کوئی حرج نہیں کہ یہ بھی صدقہ کرنا ہے۔

اولیا و صالحین کی قبروں پر چادر چڑھانے کے متعلق علامہ ابن عابدین شامی حنفی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات:1252ھ) فرماتے ہیں:

” قال فی فتاوی الحجۃ وتکرہ الستور علی القبور ولکن نحن نقول الآن إذا قصد به التعظيم في عيون العامة حتى لا يحتقروا صاحب القبر، ولجلب الخشوع والأدب للغافلين الزائرين، فهو جائز لأن الأعمال بالنيات“

ترجمہ : فتاوی حجہ میں ہے: قبروں پر غلام غالنا مکروہ ہے لیکن ہم کہتے ہیں آج کل اگر اس سے عوام کی نگاہ میں تعظیم مقصود ہو تاکہ لوگ صاحب قبر کو حقیر نہ جانیں، بلکہ غافلوں کو اس سے ادب اور خشوع حاصل ہو تو جائز ہے، اس لیے کہ اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔) رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الحظر و الاباحۃ،جلد6، صفحہ363، مطبوعہ دار الفکر بیروت(

آپ رحمۃ اللہ علیہ العقود الدریہ فی تنقیح الفتاوی الحامدیہ میں اس کی علت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

”لِأنَّ قُلُوبَهُمْ نافِرَةٌ عِنْدَ الحُضُورِ فِي التَّأدُّبِ بَيْنَ يَدَيْ أوْلِياءِ اللَّهِ تَعالى المَدْفُونِينَ فِي تِلْكَ القُبُورِ كَما ذَكَرْنا مِن حُضُور عِنْدَ قُبُورِهِمْ فَهُوَ أمْرٌ جائِزٌ لا يَنْبَغِي النَّهْيُ عَنْهُ لِأنَّ الأعْمالَ بِالنِّيّاتِ ولِكُلِّ امْرِئٍ ما نَوى“

ترجمہ: اس لیے کہ لوگوں کے دل قبروں میں مدفون اولیاے کرام کے بارگاہ میں حاضر ہوتے وقت ادب سے غافل ہوتے ہیں جیساکہ ہم نے ان قبروں کے پاس حاضر ہونے کے متعلق ذکر کیا ہے تو یہ جائز کام ہے اس سے منع کرنا مناسب نہیں کیونکہ اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کے لیے وہی ہے جو اس نے نیت کی۔ )العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية، جلد2، صفحہ324، مطبوعہ دار المعرفۃ(

علامہ اسماعیل حقی حنفی (سال وفات: 1131ھ) رحمۃ اللہ علیہ سورہ توبہ آیت نمبر 18 اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ. ترجمہ کنز الایمان: اللہ کی مسجدیں وہی آباد کرتے ہیں جو اللہ اور قیامت پر ایمان لاتے ہیں ۔ کے تحت فرماتے ہیں:

” فبناء القباب على قبور العلماء والأولياء والصلحاء ووضع الستور والعمائم والثياب على قبورهم امر جائز إذا كان القصد بذلك التعظيم فى أعين العامة حتى لا يحتقروا صاحب هذا القبر وكذا إيقاد القناديل والشمع عند قبور الأولياء والصلحاء من باب التعظيم والإجلال ايضا للاولياء فالمقصد فيها مقصد حسن“

ترجمہ: علما، اولیا اور صالحین کی قبروں پر عمارت بنانا اور ان پر غلاف(چادر) اور عمامہ اور کپڑا چڑھانا جائز کام ہیں جبکہ اس سے مقصود عوام کی نگاہ میں ان کی عزت ہو اور لوگ ان کو حقیر نہ جانیں۔ اسی طرح اولیائے کرام کے قبروں کے پاس قندیل اور شمع روشن کرنا بھی اولیا کے لیے تعظیم و اجلال کا ایک طریقہ ہے۔ اور اس طرح کا مقصد اچھا کام ہے۔)روح البیان، السورۃ التوبۃ، الآیۃ:18، جلد5، صفحہ115، مطبوعہ دار الفکر بیروت(

امام اہلسنت سیدی اعلیٰ حضرت (سال وفات:1340ھ) رحمۃ اللہ علیہ قبر پر چادر چڑھانے کے جواز کو بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

” جب چادر موجود ہو اور وہ ہنوز پرانی یا خراب نہ ہوئی کہ بدلنے کی حاجت ہوںتو بیکار چادر چڑھانا فضول ہے۔ بلکہ جو دام اس میں صرف کریں ولی اللہ کی روح مبارک کو ایصال ثواب کیلئے محتاج کو دیں ۔ ہاں جہاں معمول ہو کہ چڑھائی ہوئی چادر جب حاجت سے زائد ہو خدام، مساکین حاجت مند لے لیتے ہیں اور اس نیت سے ڈالتے تو مضائقہ نہیں کہ یہ بھی تصدق ہو گیا۔“ (احکام شریعت، صفحہ87، مطبوعہ نظامیہ کتاب گھر لاہور)

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبہ

ابو حامد عمران رضا عطاری

8 رجب المرجب 1444 ھ/1 فروری2023 ء

اپنا تبصرہ بھیجیں